پسماندہ ملکوں میں بدعنوانی، سالانہ ایک ٹریلین ڈالرز کا نقصان

Poverty

Poverty

کینبرا (جیوڈیسک) غربت کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم ’وَن‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا کہ دنیا کے پسماندہ ملکوں کو بدعنوانی کے نتیجے میں سالانہ ایک ٹریلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس گروپ نے جی ٹوئنٹی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں کو پہنچنے والے اس نقصان کی وجوہات کے خلاف کارروائی کریں جن میں منی لانڈرنگ، رشوت، ٹیکس چوری اور بدعنوانی شامل ہیں۔ ’وَن‘ تنظم نے ان ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ رواں برس نومبر میں اپنے سالانہ اجلاس میں اس صورتِ حال پر غور کریں۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم اس گروپ نے ترقی پذیر ملکوں کے لئے بدعنوانی کی اقتصادی قیمت کے موضوع پر رپورٹ بدھ کو آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبرا میں جاری کی ہے۔ اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ ہائوس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکا، کینیڈا، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ کے سفارت کار بھی شریک ہوئے۔ وَن تنظیم آسٹریلیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جی ٹوئنٹی کے آئندہ سالانہ اجلاس میں اپنی صدارت کا استعمال کرتے ہوئے رازداری کی روایت کا خاتمہ کرے جس کی وجہ سے بہت سے ملکوں میں بدعنوانی اور جرائم کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کو ’دی ٹریلین ڈالر سکینڈل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بدعنوانی کے ذریعے پسماندہ ملکوں سے پیسہ ہتھیانے کی کارروائیوں کو روک دیا جائے اور وہی پیسہ صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کیا جائے تو تقریبا چھتیس لاکھ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنف ڈیوڈ مکنائر کا کہنا ہے کہ ”ترقی پذیر ممالک منی لانڈرنگ، رشوت اور ٹیکس چوری کے نتیجے میں ہر سال ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھا رہے ہیں اور ناقابلِ فراموش سچائی یہ ہے کہ اکثر جی ٹوئنٹی ملکوں کی جانب سے بنائی گئی پالیسیاں غریب ملکوں کو نقصان پہنچانے کی کارروائیوں میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

مکنائر نے ورلڈ بینک کی ایک تحقیق کا حوالہ دیا جس کے مطابق 1980ء کے بعد سے سامنے آنے والے بڑے مالیاتی اسکینڈلز میں مشکوک کمپنیاں ملوث رہی ہیں جن کے مالکان کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔ برطانوی ورجن آئلینڈز اور امریکی ریاست ڈیلویئر ایسی کمپنیاں رجسٹرڈ کروانے والوں کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔