تحریر: سید منور نقوی سابق وزیر اعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر مرحومہ کے دور جلاوطنی میں موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سابق وزیر داخلہ رہنما پیپلز پارٹی رحمان ملک کی طویل جدو جہد کے بعد مسلم لیگ(ن)کے قائد اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے گئے اس معائدہ کے تخت دونوں حریف پارٹیاں ماضی بھلا کر جمہوریت کے نام پر ایک ہوگئی بعد ازاں سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف نے بھی این آر او جاری کیا جو دراصل میثاق جمہوریت کا ایک اہم حصہ تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین وسابق صدر آصف علی زرداری نے اسے مفاہمت کی سیاست کا نام دے دیا تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان مفاہمت کی سیاست پر ہمیشہ کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اسے مک مکا قرار دیتے ہیں 2008ء کے بعد جمہوری عمل میں مفاہمت اور مصلحت پسندی کو بنیادی فوقیت دی گئی۔ ابتدا میں اس کی پزیرائی ہوئی۔
ملک فوجی حکمرانی سے جمہوری دور میں داخل ہوا تھا۔ اس لئے سیاستدانوں نے مفاہمت کی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ کئی قانونی اور دستوری فیصلے اسی مفاہمت کے مرہون منتت ہیںپی پی پی کے دور میں مسلم لیگ(ن)کا اپوزیشن میں کردار دوستانہ کہا جاتا تھا اور اب تو حد ہی ہوگی موجودہ اپوزیشن پیپلز پارٹی تو حکومت کی بی ٹیم کا کردار ادہ کرتی رہی ہے مفاہمت کی سیاست کا ہی کمال تھا کہ میاں محمد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بنے اور اسی معادہ کے تحت آصف علی زرداری کو ملک کا صدر بنانے میں در پردہ سپورٹ کی گی دونوں طرف ایک دوسرے کے لئے نرم رویہ پایا جاتا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور اقتدار میں اس حربہ کو بار بار آزمایہ اور اس کا خوب استعمال کیا وہ جوڑ توڑ کی سیاست کے گرو سمجھے جاتے ہیںاقتدار کے اعلیٰ ایوانوں پرمفاہمت کی سیاست کا جادو سر چڑ کو بولنے لگا سابق صدر آصف علی زرداری بہت شاطر سیاستدان سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے بڑے بڑے بحرانوں میں بھی انتہائی چالاکی سے خود کو محفوظ رکھا پیپلز پارٹی کے بعد موجودہ حکومت نے بھی اسے ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے اقتدار کے خوب مزے لئے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے تاریخی دھرنے کے آگے مفاہمت کی سیاست دیوار چین ثابت ہوئی اور سینچری کرنے کے باوجود عمران خان مین آف دی میچ بھی نہ جیت سکے یہ لمحات ہمارے ملک کی نازک تاریخ کے اہم ثابت ہوئے مفاہمت کی سیاست کرنے والوں کے اصل چہرے پارلیمنٹ میں عوام کے سامنے عیاں ہوگے ہر ایک نے اجتماعی مفادات کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کا اعلان کیا۔
Crisis
یہ وہ وقت تھا جب ملک میں بجلی کا بحران عروج پر تھا دہشت گردی، بے روزگاری ،پیٹرول اور گیس کی شارٹچ اور مہنگائی زخیرہ اندوزی نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کررکھا تھا مفاہمت کی سیاست کا جہاں ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا وہاں سب سے زیادہ نقصان مک مکا کے گرو سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کو ہوا آج وہ خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہوچکے ہیں ان کے قریبی ساتھی اور بڑے بڑے رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے ابھی چھوڑنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں پنجاب میں پیپلز پارٹی کاتقریباء صفایا ہوچکا ہے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت کی کامیاب حکمت عملی کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کا ورکر قیادت سے شدید ترین نالاں تھا اور رفتہ رفتہ برسوں کی رفاقت ختم کرکے جیالے پی پی پی کو چھوڑنے پر مجبور ہوگے 2013 کے قومی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں شدید دبائو کا سامنا رہا۔
جبکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں کوئی کونسلر بھی نہ جیتا سکی حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی پارٹی کے پاس امیدواروں کی کوئی لسٹ دستیاب نہ ہوسکی چند حلقوں میں چند افراد بوجھل دل کے ساتھ میدان میں اترے ضرور ہیں مگر وہ بھی آزاد ادھر پاک فوج نے ملک کے اندر اور بارڈر پر ضرب عضب شروع کررکھا ہے جس کی زد میں نہ صرف دہشت گرد بلکہ چور اور لٹاورے بھی ہیں پیپلز پارٹی اس آپریشن کا حصہ بننے والی پہلی پارٹی ہے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور مرکزی رہنمامخدوم امین فہیم پر مقدمات درج ہورہے ہیں شرجیل میر اور بہت سے دوسرے وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں سابق صدر آصف علی زرداری نے یقینی طور پر پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جیالے طویل رفاقت توڑنے پر مجبور ہوچکے ہیںمحترمہ بے نظیر بھٹو اور بانی قائد زوالفقار علی بھٹو کے ساتھی اور چاہنے والے دیوار سے لگا دئے گے ہیں۔
جب پیپلز پارٹی مسلم لیگ(ن)کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھے پیپلز پارٹی پنجاب کا کارکن کو شہباز شریف حکومت چن چن کر ماررہی تھی رہی سہی کسر اپوزیشن لیڈر کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حق میں محبت بھرے بولوں نے نکال دئے اب جب کہ زرادری اور ان کی ٹیم نیب اور دوسرے اداروں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں توانھیں ملک کے اندر مسائل بھی نظر آئے اور بیڈ گورنر شپ بھی سنا ہے اب جناب آصف علی زرداری نے مفاہمت کی سیاست کو ترک کرنے کا اعلان کردیا مگر اب بات بہت دور نکل چکی ہے شاہد سابق صدر زرداری کو اب ماننا پڑے گا کہ وہ سیاست کی پی ایچ ڈی نہیں ہیں بلکہ یہ تو جاوید ہاشمی نے ان سے مذاق کیا تھا محترم قارین کرام یہ 1990 نہیں بلکہ2015ہے ملک میں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور ملک کے اندر ایک مضبوط اور نڈر قیادت کے طور پر تحریک انصاف بھی موجود ہے۔
PPP and PML-N
اب یہ ڈرامے اور کہانیاں کسی کام کی نہیں دھرنے کے دوران میں نے اپنے ایک کالم میں یہ دعوہ کیا تھا کہ دھرنا پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن)میں سے کسی ایک جماعت کو نگل لے گا مفاہمت کے نام پر دونوں بڑی پارٹیوں نے قوم کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ اور مزاق کیا دونوں کو جب بھی خطرہ محسوس ہوا ایک ہوگے ، پاکستان کے موجودہ بحران کا حل کسی ایک جماعت کے پاس نہیں، اس کے لیے ایک بڑے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ یہ اتفاق رائے قومی مسائل کی سنگینی کی بنیاد پر ہونا چاہئیے۔
حکومت اور حزب اختلاف کو قومی مسائل پر حقائق کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ اس وقت ہمیں ایک ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار حزب اختلاف کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے داخلی اور خارجی مسائل اب اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اہم قومی اور علاقائی معاملات میں کمزوریوں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ یہ وقت سخت اور مشکل فیصلوں کا ہے اور ان فیصلوں کی کڑوی گولی سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور قومی راہنمائوں سمیت سب کو ہضم کرنی ہوگی۔ اب ملک کو چلانے کے لیے ایڈہاک ازم پر مبنی پالیسیوں سے اجتناب کرنا ہوگا