تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی کہتے ہیں کہ آنکھیں محبت کا استعارہ ہیں تو یہی آنکھیں بے وفائی کی علامت بھی تو سمجھی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ تو آنکھوں کے راستے دل میں اُتر جانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ایک طرف یہ آنکھیں حُسن کو جِلا بخشتی ہیں تو دوسری طرف اس کائنات کی خوب صورتی آنکھوں کی ہی مرہونِ منت ہے۔ یہ آنکھیں ہی تو ہیں جو ہمیں خوبصورت رنگوں سے بھرپور دنیا دِکھاتی ہے۔
نیلے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتا چاند، قوسِ قزح کے رنگوں میں نہاتا سورج دکھاتا ہے۔ آنکھیں انسانی جسم کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کا ذکر طِب سے زیادہ شعر و ادب کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہی آنکھیں بِن کہے بہت کچھ کہہ جاتی ہیں، یہی آنکھیں ہمیں سب سے زیادہ دھوکہ بھی دیتی ہیں۔ ایک طرف صحرا میں چمکتے پانی کی جھلک دکھاتی ہیں تو دوسری جانب نخلستان کو صحرا کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ یہی آنکھیں ہمیں کسی انسان کو ہوا میں معلق دیکھ کر حیرت و استعجاب سے دانتوں تلے انگلیاں چبانے پر مجبور کر دیتی ہیں تو دوسری طرف یہی آنکھیں وہ سب دیکھنے پر مجبور کرتی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یہی آنکھیں ہمارے دماغ کو دھوکا دے کر فریبِ نظر پر یقین کراتی ہیں۔
آنکھوں کی فریب نظری اور راز افشاں کرنے کی بابت سائنس کہتی ہے کہ اگر ہم کسی سے سچ سننا چاہتے ہیں تو عموماً ہمارا سوال یہ ہوتا ہے کہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دو، یہی طریقہ ایک محبوب اقرارِ محبت سننے کے لئے اختیار کرتاہے اور یہی طریقہ ایک پولیس اہلکار اقرارِ جُرم سننے کے لئے، اگر آپ کسی کے سچ اور جھوٹ کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو مخاطب کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا حقیقت جاننے کا سب سے بہتر طریقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آنکھوں کو روح کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ جدید تحقیق نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ آنکھیں نہ صرف حقیقت کو آشکار کرتی ہیں بلکہ چیزوں کو یاد رکھنے اور فیصلہ کرنے کی قوت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہماری آنکھیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں، ان میں سے کچھ حرکات شعوری ہوتی ہیں تو کچھ لاشعوری۔ مثال کے طور پر پڑھتے وقت ہماری آنکھوں کی حرکت زیادہ تیز ہو جاتی ہے، اس کا سبب ایک لفظ سے دوسرے لفظ کی طرف آنکھ کے ڈھیلے کی حرکت ہوتی ہے۔
اسی طرح جب ہم کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو ہماری پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ چلتے وقت ہماری آنکھیں غیر شعوری طور پر حرکت کرتی ہیں۔آنکھوں کی ان تمام حرکات کا تعلق دماغ کے سوچنے سے ہوتی ہے۔ حال ہی میں ایک سائنسی جریدے ” پی۔ ایل۔ او۔ ایس۔کمپیوٹیشنل” میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا آنکھوں کی حرکات سے گہرا تعلق ہے۔ کسی فیصلے میں تذ بذب کے شکار فرد میں ہیجان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اُس کی آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔
Research for Eyes
آنکھ میں ہونے والی اس تبدیلی سے یہ راز بھی منکشف ہو سکتا ہے کہ فیصلہ ساز کیا کہنے والا ہے۔ اس مطالعے کے سربراہ اور یونیورسٹی آف زیوریخ کے پروفیسر ٹوبیاز لوئٹشر کا کہنا ہے کہ آنکھوں میں دیکھ کر اس بات کی پیش گوئی کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اس فرد (جس کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں)کے دماغ میں کون سا عدد موجود ہے۔ اس بات کی جانچ کے لئے پروفیسر ٹوبیاز اور اُن کے ساتھیوں نے ١٢ رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی۔ ٹیم میں شامل افراد کو ایک سے چالیس نمبر پر مشتمل فہرست دکھا کر اُن کی آنکھوں کی حرکات کی جانچ کی گئی۔ ان تمام افراد کی آنکھوں کی سمت اور پتلیوں کا پھیلائو اس بات کی بالکل درست پیشگوئی کر رہا تھا کہ وہ کون سا عدد کہنے والے ہیں۔ ہر رضاکار نے بڑا عدد بتانے سے پہلے اوپر اور سیدھی طرف دیکھا، جب کہ چھوٹے عدد بتانے والوں نے نظریں نیچی کرکے الٹی طرف دیکھا۔ محققین کے مطابق کسی مخصوص عدد کے بارے میں سوچنا آنکھوں کی سمت میں تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔
کسی دن بٹھا کے پوچھیں گے تیری آنکھوں سے کس نے سکھایا ہے انہیں ہر دل میں اُتر جانا
ہماری آنکھیں کس کس طرح ہمیں دھوکا دیتی ہیں؟ فریبِ نظر کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاریخ میں ہر ذہین دماغ میں یہ سوال مچلتا رہا ہے کہ آخر کیوں ہماری آنکھیں سادہ سی ڈرائنگ، الوڑن کے ہاتھوں آسانی سے بے وقوف بن جاتی ہیں۔ اس کا ذکر یونان کی قدیم تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ٣٥٠ قبل مسیح کے مشہور یونانی فلسفی ارسطو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ” ہم اپنے فہم (سینس) پر بھروسا کر سکتے ہیں، لیکن اسے با آسانی بے وقوف بھی بنایا جا سکتاہے” اگر ہم ایک آبشار کو دیکھتے ہوئے اپنی نظروں کا رُخ چٹانوں کی طرف کر لیں تو ہمیں ایسا لگے گا کہ پہاڑ اور چٹانیں آبشار کی مخالف سمت میں حرکت کر رہی ہیں۔ آنکھوں کا دماغ کو دھوکا دینے والے اس تاثر کو اب ہم ” آبشار کے فریبِ نظر” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کی سائنسی توجیح اس طرح پیش کی جا سکتی ہے کہ جب ہم پانی کے بہائو کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ میں موجود نیورونز (عصبی خلیے) اس حرکت سے موافقت پیدا کر لیتے ہیں اور جب اپنی نظر کو چٹانوں کی طرف کرتے ہیں تو آنکھ سے ملنے والے پیغامات دوسرے نیورونز کو اُس حرکت کے برعکس کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس کے نیتجے میں یہ فریبِ نظر پیدا ہوتاہے۔ ذہن سازی اور آنکھوں کے مابین تعلق جاننے پر انیسویں صدی میں سائنس دانوں نے دیگر بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ تصورات کا مطالعہ کیا، اس کی تفصیل میں گئے تو مضمون طویل ہو جائے گا۔
ایک مکتبۂ فکر کے مطابق کچھ فریبِ نظر ایسے ہوتے ہیں جو دماغ کو مستقل اس بات کی پیش گوئی کی کوشش میں مصروف رکھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ تھیوری کسی واقعے کے رونما ہونے میں معمولی تاخیر اور ہمارے شعور میں موجود اس شے کے تصور کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس حوالے سے امریکی نیورو بایو لوجسٹ مارک چانگ زی کاکہناہے کہ جو الفاظ ابھی آپ پڑھ رہے ہیں ان کی روشنی آپ کی آنکھوں تک پہنچ چکی ہے، لیکن ان سگنلز کو دماغ تک پہنچنے اور پروسیس ہونے میں وقت لگے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس دنیاکا ادراک کرتے ہیں وہ قدرے پیچھے ہے۔ بسا اوقات جب بہت زیادہ معلومات ہمارے ریٹینا (آنکھ کا پردہ) سے ایک وقت میں ٹکراتی ہیں تو اسنیک الوڑن پیدا ہوتا ہے۔
یہ تمام تفصیلات بیک وقت ہمارے دماغ کے بصری حصے میں داخل ہو جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں دماغ تذبذب کا شکار ہوکر سوچنے پر مجبور ہو جاتاہے۔ جس میں اہم کردار ہماری آنکھوں کا بھی ہے، کیوں کہ ہمارا دماغ کسی چیز کو دیکھ کر ہی اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے سائنس دانوں کو ہمارے دماغ میں جھانکنے اور اس میکانزم کو سمجھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ آنکھوں کی چالبازیوں پر ہونے والی اب تک کی تمام تحقیقی کاوشیں ایک نکتے پر مرکوز ہو جاتی ہیں ” ہمارے دماغ کا بصری نظام آنکھوں سے موصول ہونے والی تمام تر معلومات کو ایک ساتھ نہیں برت سکتا، اس کام کے لئے اگر ہمارا دماغ ایک عمارت سے بھی بڑا ہو جائے تب بھی ان معلومات کو سنبھالنے میں ناکافی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دماغ شارٹ کٹ کا عادی ہو چکا ہے، وہ ہمیں ریس میں بہترین گھوڑے پر شرط لگانے کے بجائے اُس گھوڑے کو منتخب کرنے پر زور دیتا ہے جسے ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔”