تحریر : چوہدری غلام غوث مرحوم بابا جی اشفاق احمد اس ملک کے حقیقی دانشور تھے، بابا جی معاشرے کے نبض شناس ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے علاج کی حکمتوں سے بھی آشنا تھے۔ ادب کی دُنیا کے اس بڑے بزرگ نے جب پی ٹی وی ہوا کرتا تھا عید کے موقع پر ایک پروگرام میں بتایا کہ عید کے روز اُن کے دل میں خیال آیا کہ وہ ایک اچھا سا کیک خریدیں اور اپنے مقامی پولیس اسٹیشن کے عملہ سے جا کر عید مل کر آئیں بابا جی کہتے ہیں کہ میں نے ایک کیک خریدا اور سیدھا پولیس اسٹیشن جا پہنچا وہاں سامنے کمرے میں بیٹھے پولیس آفیسر سب انسپکٹر سے ملا اور سلام دُعا کے بعد بیٹھ گیا، کچھ لمحوں بعد پولیس آفیسر نے اپنے مخصوص روایتی انداز میں پوچھا بابا جی بتائیں کیا کام ہے تو میں نے کہا کہ مجھے تو آپ سے کوئی کام نہیں میں تو صرف آپ لوگوں سے عید ملنے کے لیے آیا ہوں اور عید کے اس پُرمسرت موقع پر آپ کے لیے کیک لایا ہوں وہ پولیس آفیسر جلدی سے اپنی کُرسی سے اُٹھا اور مجھے کہا بابا جی اب عید ملیے وہ میرے سینے سے لگ کر ایسے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگاجیسے ایک بچھڑا ہوا بچہ اچانک باپ کے مل جانے پر زار و قطار روتا ہے جب رو رو کر اُس نے آنسو پونچھے اور چپ ہوا تو میں نے اُس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے کہا بابا جی پولیس کتنی خوش قسمت ہے کہ معاشرے کے بزرگ اُس سے اتنا پیار کرتے ہیں جبکہ ہمیں تو اکثریت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو بابا جی نے فرمایا کہ آپ کو یہی بات تو سمجھانا مقصود تھی کہ انسانی رویوّں کی تبدیلی سے کتنا فرق پڑتا ہے۔
بابا جی نے اُس سے کہا میرے تین سوالوں کا جواب دو، کیا میری تجھ سے کوئی رشتہ داری ہے؟کیا میں تمہارا مجاز آفیسر ہوں؟اور کیا میں ایک سائل ہوں؟پولیس آفیسر نے تینوں سوالوں کے جواب سرہلا کر نفی میں دیئے تو بابا جی نے فرمایا بتاؤ کس بات نے تجھے اتنا جذباتی کر دیا کہ تم میرے گلے لگ کر رونے لگے؟ تو اُس نے فوراً کہا بابا جی آپ کا یکسر مختلف شفقت بھرا روّیہ جو آپ نے ہمارے ساتھ روا رکھا تو بابا جی نے کہا یہی بات تو سمجھنے کی ہے کہ روّیے کی تبدیلی کتنے دیرپا اثرات رکھتی ہے اسی طرح کا روّیہ اگر آپ لوگ مظلوم سائل سے اختیار کریں اور وہ اسی طرح سے آپ کے گلے لگ کر جی بھر کے آنسو بہا لے تو اس کا آدھا دُکھ اس سے ختم ہو جائے گا وہ اندر سے ہلکا ہو جائے گا اگر آپ لوگ عام سائل کے لیے اپنا روّیہ تبدیل کر لیں اور اس سے ہمدردانہ اور نرم لہجہ میں گفتگو کرنے کا وصف اپنا لیں تو سائلین اور عوام کو اُن کے آنسو خشک ہونے سے پہلے آدھا ریلیف موقع پر میسر آ جائے گا جس کی اُنہیں اس کربناک موقع پر اشد ضرورت ہوتی ہے۔
بابا جی نے کہا یاد رکھو معاشروں میں ہمیشہ مثبت تبدیلی انسانی رویوں کے تبدیل ہونے سے آتی ہے اور تبدیلی کا یہ زینہ معاشروں کو ترقی کی معراج پر لے جاتا ہے۔ قارئین کرام! آپ جانتے ہیں کہ حکومتِ پنجاب نے عشروں پر محیط پولیس کی وہ وردی تبدیل کر دی ہے جو انگریز سرکار کی نشانی گردانی جاتی تھی حکومت پنجاب کا وردی تبدل کرنے کا یہ فیصلہ قابلِ صد ستائیش ہے۔ چلیں پولیس میں کُچھ تو تبدیلی آئی اور صوبے کے عوام کا یہ تاثر تو غلط ثابت ہوا کہ پولیس بدل نہیں سکتی اب حکوتِ پنجاب کی کوششوں سے پنجاب پولیس کے شیرجوانوں کے بدلے ہوئے تیور نظر آئیں گے۔ پولیس کا محکمہ اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ یہ تبدیلی کا آغاز ہے جو آگے چل کر محکمہ پولیس میں حقیقی تبدیلی کا روپ دھار لے گا۔ حکومتِ پنجاب کو پولیس کی ٹریننگ کا وہ نظام جو انگریز نے بنایا ہوا تھا اُسے بھی بدلنا چاہیئے اسے موجودہ جدید تقاضوں کے مطابق مکمل ہم آہنگ کر کے اسلامی تعلیمات کے سنہری اصولوں کی روشنی میں مزین کرنا ضروری ہے اب پولیس کو مزید انگریزوں کا بنایا گیا پولیس ایکٹ پڑھانے کی بجائے حضرت عمر فاروق کی انصاف پر مبنی اصلاحات اور اُن کا اسلامی نظامِ تفتیش پڑھایا جائے جس سے سائل کو کم از کم وقت میں انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ پولیس کو نصاب میں اخلاقیات ، سماجیات اور انسانی نفسیات پڑھائی جائے جدید ہتھیاروں اور سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تربیت کا جامع پروگرام تشکیل دیا جائے۔
پولیس ملازمین سے 24 گھنٹے ڈیوٹی لینے کی بجائے ان کی بھی شفٹ سسٹم کے تحت ڈیوٹی لگائی جائے تاکہ پولیس ملازمین بھی ذہنی سکون اور جسمانی آرام سے مستفید ہو سکیں جس سے ان کے رویوّں میں خوشگوار تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے پولیس کو سیاسی شکنجے سے مکمل آزادی دے دی جائے کوئی بھی حکومتی ایم پی اے، ایم این اے ، وزیر یا مشیر اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے کسی بھی ایس ایچ او، ڈی ایس پی، ایس پی یا ڈی پی او کی تعیناتی اپنی مرضی سے نہ کروا سکے اس اصول پر نعروں کی بجائے عملی اقدام اُٹھانے سے پولیس کے محکمہ میں مثبت تبدیلی کی جا سکتی ہے جبکہ اس کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ کام صرف خادم پنجاب محمد شہباز شریف جن کی انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جاتا ہے، اپنے دبنگ اور نہ بدلنے والے فیصلے سے کر سکتے ہیں جیسا کہ اُن کے بارے میں مقولہ مشہور ہے وہ جس کام کو کرنے کی ٹھان لیں اُس کی تکمیل تک چین سے نہیں بیٹھتے۔ یہ کام عملی طور پر کر دکھانے کا ہے جس طرح اُن کے دیگر منصوبے عملی طور پر کھڑے مخالفین کو منہ چڑا رہے ہوتے ہیں اُن کو جب سامنے چلتی میٹرو بس، سٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں پکڑے لیپ ٹاپ اور اورنج ٹرین کا تعمیراتی کام نظر آتا ہے تو سوائے نظر چُرانے کے اُن سے کچھ بن نہیں پڑتا۔
اب خادم پنجاب بغیر کسی سیاسی دباؤکو خاطر میں لاتے ہوئے پنجاب پولیس کو مکمل طور پر سیاسی شکنجوں سے آزاد کر دیں اور عام شہری کہتا نظر آئے کہ پنجاب میں کہیں بھی اب ایس ایچ او، ڈی ایس پی، ایس پی اور ڈی پی او کسی ایم پی اے، ایم این اے یا وزیر، مشیر کا سفارشی نہیں لگا بلکہ صرف اور صرف اہلیت، اچھی شہرت اور پیشہ وارانہ مہارت کے اصول اپنا کر پولیس کے تمام انتظامی عہدوں پر تعیناتیاں عمل میں لائی جاتی ہیں اور پنجاب پولیس کو مکمل طور پر سیاسی یتیم بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب پولیس میں تقرریوں اور تبادلوں میں عدم دلچسپی لینے والے اراکین اسمبلی کو اُن کے حلقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی سکیمیں دینے کا رواج ڈال دیا جائے تو ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں پولیس کے تقرری و تبادلوں کے بارے میں دی گئی سفارشی چٹوں میں کمی کی جا سکتی ہے۔
راقم یہ سمجھتا ہے کہ یہ کام خادم پنجاب ہی کر سکتے ہیں جو دیگر تینوں صوبوں کی نسبت کم سے کم سیاسی مصلحتوں کا شکار نظر آتے ہیں اور صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کیے گئے اپنے فیصلہ جات پر عمل درآمد کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں پولیس کے حوالے سے سیاسی شکنجے سے آزادی کے فیصلہ کو بھی صوبہ کے عوام قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے ورنہ وردی تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی کُچھ نہیں کر سکے گا جتنی دیر پولیس کا اندر سے رویہ تبدیل نہیں ہوتا اور پولیس کے اعصاب کو جس چیز نے برُی طرح جکڑ رکھا ہے وہ بھرپور سیاسی مداخلت ہے جس کا مکمل حاتمہ کیے بغیر پولیس کی غیرجانبداری ہمیشہ مشکوک رہے گی اور ان کے رویوں میں تبدیلی ہمیشہ ایک سہانا خواب رہے گی اب یہ خواب کب پورا ہوتا نظر آتا ہے یا اس خواب کی تعبیر کب ملتی ہے انتظار فرمائیے کیونکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ انسانی رویوّں کی تبدیلی کے بغیر دُنیا کی کوئی بھی تبدیلی کارگر ثابت نہیں ہوتی۔