اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل کے اصرار پر کہا ہے کہ عدالت یہ فیصلہ دے دے گی کہ یونیفارم والے افراد پر مقدمہ آئین اور قانون کے تحت کہاں چل سکتا ہے اور کہاں نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس میں زاہدہ بی بی کے شوہر تاسف علی کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ملٹری انٹیلی جنس کے میجر حیدر پرتاسف علی کی گمشدگی کے الزامات ہیں۔ ایم آئی کے وکیل ابراہیم ستی نے موقف اختیار کیا کہ یونیفارم پرسنز کو آئین اور قانون تحفظ دیتا ہے ملٹری انٹیلی جنس کوبطور ادارہ تشویش ہے کہ میجر حیدر کا ٹرائل کہاں اور کس طرح ہو گا کیوں کہ یونیفارم پہنے شخص کے خلاف ادارہ خود کارروائی کرتا ہے۔ ایم آئی کے وکیل نے اونچی آواز میں بات کرنا چاہی تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ ایم آئی کا دفتر نہیں اپنی آواز دھیمی رکھیں۔
عدالت نے کہا کہ لاپتہ شخص کا لکڑی کا کاروبار تھا اور گمشدگی سے پہلے اس کی مبینہ طور پر میجر حیدر سے فون پر لڑائی بھی ہوئی، یہ ا دارہ جاتی نہیں انفرادی معاملہ لگتا ہے ، آپ اس حوالے سے ہدایات لے لیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی وفا ق سے ہدایات لینے کا کہا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ میجر حیدر کے خلاف ایف آئی آر درج اور تفتیش کرنے والے والے ایس ایچ او تنویر وڑائچ کا تبادلہ کر دیا گیا ہے ۔ عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش دوبارہ تنویر وڑائچ سے کرانے کی ہدایت کر دی۔