یونین کونسل میں اندراج

Taxila

Taxila

تحریر : زاہد محمود
اے صبح تو میرے دیس میں آکر رہے گی
روکیں گے تجھے شب کے طلبگار کہاں تک
یوں تو کوئی بھی لکھا گیا کالم عوامی مسائل سے متعلقہ ہی ہوتا ہے لیکن اپنے اس کالم میں کچھ ایسے مسائل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس میں کوئی اختلافی نوٹ شاید نہ ہو اس لئے میری اس کالم کے ذریعے ان تمام احباب سے درخواست ہوگی کہ برائے مہربانی ان تمام مسائل کو حل کیا جائے کیونکہ یہ تمام مسائل اس طبقہ سے متعلقہ ہیں جو کہ حقیقی طور پر مستحق ہے کہ انکے مسائل کا حل کیا جائے اور اس تمام مشق کے ذریعے اس طبقہ کا بہت سا فائدہ ہو جائے گا اور حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں آسانی ہوگی۔

میرا تعلق ٹیکسلا کے ایک گاؤں سالارگاہ سے ہے سب سے پہلے تو میرے مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ دیہاتوں میں بہت سارے لوگ خاص طور پر خواتین ایسی ہیں جنکا یونین کونسل میں اندراج ہی نہیں ہے اب چونکہ نیا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے کمپیوٹرائزڈ پیدائشی سرٹیفیکیٹ ضروری ہوچکا ہے لہٰذا بہت سارے لوگ ایسے ہیں جنکا ب فارم میں اندراج نہیں ہے اور انھیں ب فارم میں اندراج کے لئے پیدائشی سرٹیفیکیٹ جو کہ نادرا کا ہو بنوانا پڑتا ہے ۔

یونین کونسل میں اندراج نہ ہونے کا مطلب ریاست کے کاغذات میں وہ شخص موجود ہی نہیں ہے چونکہ ہماری ریاست لوگوں کو صحیح معنوں میں باشعور اور تعلیم یافتہ کرنے میں ناکام ہوئی ہے جو کہ ریاست کی ذمہ داری تھی لہٰذا یہ ذمہ داری بھی ریاست ہی کی ہے وہ اسکا ازالہ بھی کرے اب ایک آدمی کے ہاں اگر 2یا 3 بچیاں ہیں تو وہ بنواتا ہی نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ لیٹ اندراج کی فیس نہیں بھر پا رہا ایک عام اور غریب آدمی جسکی آمدن 12000 روپے ہے وہ جس مشکل سے گزارا کر رہا ہے اسکا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں لہٰذا وزیر داخلہ چودھری نثار صاحب اور وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف صاحب وزیر اعلٰی خیبر پختونخواہ پر ویز خٹک صاحب وزیر اعلٰی سندھ جناب سید قائم علی شاہ صاحب اور وزیر اعلٰی بلوچستان جناب ڈاکٹر عبدالمالک صاحب سے یہ مؤدبانہ گزارش ہے کہ پورے ملک میں اگر اس طرح کی کوئی سکیم چلائی جائے کہ 2 مہینے کے اندر اندر تمام ایسے لوگ جنکا یونین کونسل میں اندراج نہیں۔

Enrollment

Enrollment

وہ تمام لوگ اپنا اندراج مفت کروا لیں اس سے کم وبیش ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہوگا اور ہزاروں غریب لوگوں کی دعائیں آپکو ملیں گی جو کہ شاید آپکو اس دنیا میں بھی کام آئیں اور آپکا یہ کارِ خیر آپکی صحیح معنوں میں غریب آدمی کی خدمت کا موقع بن جائے نادرا کے حکام سے بھی میری گزارش ہے کہ اگر وہ اس سلسلے میں کوئی سکیم اپنے طور پر نکال سکتے ہیں تو نکال دیں تاکہ عام آدمی کا بھی کوئی فائدہ ہوسکے ۔ ایک مشورہ ہے کہ بچوں کے اندراج کے لئے بجائے یونین کونسل کے اگر متعلقہ وارڈ کے کونسلر کو اگر یہ ذمہ داری سونپ دی جائے تو کارِ سرکار میں تھوڑٰ سے آسانی بھی پیدا ہوجائے گی اور بہت ساوقت بھی عام آدمی کا بچ جائے گا۔

میرا دوسرا مشاہدہ ہے کہ بہت سارے ایسے لوگ جو کہ معذور ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ ایک ایسی عمر سے جس میں وہ کچھ کام کاج کر کے گزارہ سکیں گزر چکے ہیں اور بہت ساری ایسی خواتین جو کہ بیوہ ہیں لیکن حکومت کی ان پر نظر نہیں پڑتی جسکی وجہ سے وہ حکومتی مدد لینے سے قاصر رہتے ہیں میری اس کالم کی وساطت سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن محترمہ ماروی میمن سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی کچھ اس طرح کا نظام دیں جس سے واقعی میں حقداروں کو انکا حق مل سکے۔

اگر زیادہ نہیں تو حکومت وقت وہ تمام بیوہ خواتین جن کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور وہ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں انکے نجی سکولوں میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرے میں بہت سارے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کہ واقعی حقدار ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی ایسا منظم نظام نہیں ہے جسکی وجہ سے ہمیں حقداروں کا صحیح طور پر پتہ چل سکے اگر احباب اختیار میرے علاقے کی حد تک میری مدد چاہیں تو میں اسکے لئے حاضر ہوں اسی طرح بہت سارے لوگ جو کہ اپنے اپنے علاقہ میں درد دل رکھنے والے ہونگے وہ ضرور مل جائیں گے جو کہ اس سلسلے میں آپکی مکمل اور صحیح راہنمائی کر سکیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صحیح معنوں میں عوامی خدمت کے لئے جلد از جلد اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ معاشرے کا وہ طبقہ جو اپنے لئے کسی مسیحا کا منتظر ہے۔

Responsibility

Responsibility

وہ ان اقدامات سے مستفید ہو اور کسی ڈکیٹیر کی آمد کی دہائی نہ دے جمہوری لوگ اپنی ذمہ داری پوری کریں تو کوئی بھی کسی ڈکٹیٹر کے لئے دہائی نہیں دیگا۔ یاد رہے کہ یہ صرف وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں لہٰذا تمام صوبوں کے وزرائے اعلٰی صاحبان بھی خدا کو جواب دہ ہیں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی ضلعی حکومتیں بھی ان لوگوں کی کسمپرسی کی ذمہ دار ہونگی لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی اور آگے بڑھ کر معاشرے کے اس محروم طبقے کے لئے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کرنا ہونگے جس سے اس طبقے کو اطمینان نصیب ہو اور وہ اور انکے بچے بھی ملکی ترقی کے اور خوشحالی کے خواب دیکھ سکیں۔

اس سلسلے میں میری گزارش ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو کہ رضاکارانہ کام کرے اور وفاقی ، صوبائی، ضلعی اور نجی تعاون سے اسے چلایا جائے اور ایماندار لوگوں کی تقرری کی جائے لوگ بجائے ادھر ادھر امداد کرنے کے سیدھا ااس ادارے کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروائیں اور وہ ادارہ بلدیاتی نمائندوںسے ملکر حقدار لوگوں کا تعین کرنے کے بعد ان کی باعزت امداد کا بندوبست کرے تاکہ کسی بھی شخص کو امداد لیتے ہوئے یہ نہ لگے کہ وہ بھیک لے رہا ہے اور اسکی خودی پر بھی کوئی ضرب نہ پڑے ۔ بظاہر یہ مشکل لگتا ہے لیکن فلاح عامہ کے لئے یہ ناگزیر ہے ایسا قدم بالآخر وفاقی حکومت کو ہی اٹھانا ہوگا اور جو بھی صوبائی حکومت اس سلسلے میں رکاوٹ ڈالے اسے عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام کو اپنے چنے ہوئے نمائندوں کا پتہ چل سکے۔امید ہے کہ میری یہ گزارشات نقار خانے میں طوطی کی آواز نہیں ہونگی۔

Zahid Mehmood

Zahid Mehmood

تحریر : زاہد محمود