یونین کونسل ٹہی کی سیاست اور عوامی رائے

Politics

Politics

تحریر : اشفاق حسین
قارئین !حلقہ این اے اکسٹھ کی سیاست میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جا ری ہے ۔ کہیں ملک سلیم اقبال تو کہیں سردار ذوالفقار علی خان دلہہ آپس میں آمنے سامنے ہیں تو کہیں آزاد امیدوار کو ق لیگ کی سپورٹ کا راگ الپا جا رہا ہے ۔ہر طرف سیاسی ماحول اس قدر گرما گرمی کا شکار ہے کہ ہر دکان ، ہوٹل اور ڈھا بے پر سیاست ہی زیر بحث ہے ۔ کو ئی ن لیگ کی جیت کو تقینی بنا تے دیکھا ئی دیتا ہے تو کو ئی ق کی ۔ عوامی حلقوں میں را ئے ن لیگ کے امیدواروں کے مخا لف بھی چلتی دیکھا ئی دیتی ہے ۔ اور آزاد امیدواروںکی گڈی کی اڑان کچھ اونچی دیکھا ئی دیتی ہے ۔ بحرحال ابھی ماحول قیاس آرائیوں کا ہے ۔ یہ تو وقت بتا ئے گا کہ جیت کا سہرا کون باندھتا ہے۔

قارئین ! کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد امیدواروںنے سیاسی سرگرمیوںکا اعلان کرتے ہوئے ووٹررں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔اگرچہ انتخا بات جماعتی بنیادوں پر کرائے جا رہے ہیں۔لیکن دیہاتی آبادی میںجماعتی انتخابات کاکوئی تصور نہیں ہوتا۔ دیہات میں برادری ازم ہوتا ہے۔جمات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ بات کر تے ہیں یونین کونسل ٹہی کی ۔اس وقت سیاسی صورت حال یونین کونسل ٹہی کی کچھ یوں بنتی ہے۔کہ اس وقت تین گروپ آپس میں پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔جس میںحکمران جماعت ن لیگ کے دو امیدواراورایک ق لیگ کا امیدوار شامل ہیں۔

PML N

PML N

ن لیگ ملک سلیم اقبال گروپ کی طرف سے ملک فیروز خان دودیال ،ایم پی اے ذوالفقار دولہہ کی طرف سے ملک غلام شبیر پٹواری اور ق لیگ کے امیدوار ملک عبدالقادر صابر شامل ہیں۔ ٹہی کے عوامی حلقوں میں اس وقت حکمران حکومت زیر بحث ہے۔آپس کی لڑائی نے ن لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔جس کی وجہ سے ن لیگ کی ساکھ کو شدید نقصان ہو رہا ہے ۔اور یونیں کونسل ٹہی ان بارہ واڈز میں شامل ہے جس میں ن لیگ کے امیدواروں میں ٹکٹ کے حصول کے لیے سرد جنگ جاری ہے۔جس کی وجہ سے اپوزیشن کو کافی فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے اور اپوزیشن آئے روز مضبوط ہوتی جارہی ہے۔جس نے ن لیگ کی جیت کو نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور بنا دیا ہے۔

کیونکہ کہ اپوزیشن میں موجود ق لیگ کے امیدوار کوسردار غلام عباس گروپ اور پیپلز پارٹی کی حماعت حاصل ہے۔جو ن لیگ کو ٹف ٹائم دی سکتی ہے۔ یونین کونسل ٹہی،دودیال کو چھ واڈز میں تقسیم کیا گیا ہے ۔جس سے چیرمینی کے تین امیدواراورجنرل کونسلر کے آٹھارہ امیدوار مدمقابل ہیں۔ امیدواراپنے ووٹروں کو روز نئے منشور کی کہا نیاں سنا کر اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر مائل کر رہے ہیں۔تو کہیں ان کو منتخب ہو نے کے علاقے کی ترقی کی کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔اور کہیں برادری اوررشتہ دار ہونے کادعوہ کیا جا رہا ہے۔ الغرض ووٹروں سے ووٹ حاصل کرنے کیلے ہر اوچھا ہتکنڈا اپنایا جا رہا ہے۔

قارئین ! عوام کی قیاس آرائیاں جاری رہیں گی مگر فیصلہ اکتیس اکتوبر کو ہو گاووٹ بہت اہمیت ہے ووٹ انسان کے ضمیر کا فیصلہ ہے۔لہذا کسی کے کہنے پرووٹ نہ دیں بلکہ ضمیر سے فیصلہ کریں۔اسی ووٹ سے حکومتیں بنتی ہیں اور یہی حکومتی نمائندے عوام کی ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

Ashfaq Hussain

Ashfaq Hussain

تحریر : اشفاق حسین