تحریر : خان فہد خان یہ رنگ برنگی دنیا دلکش نظارے اور عیش و عشرت سے بھر پور زندگانی جہاں تک نظر جائے ہر جانب ترقی کے مظاہر۔بات سیدھی سی ہے کہ آج ساری دنیا ایک گلو بل ویلیج کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔اب انسانیت کے دامن میں علم و دانش کی بے پناہ تجلیاں تہذیب و تمدن کے بے پناہ اجالے ہیں۔جن کی بدولت آج انسان زمین پر چل ہی نہیں رہا بلکہ ہوائوں کی دوش پر اڑ بھی رہا ہے۔آج کا انسان زمین پر گھر ہی نہیں بلکہ خلا میںا سٹیشن بنا چکا ہے۔آج انسان بلند ترین پہاڑوں کو ہی سر نہیں کر رہا بلکہ چانداور دیگر سیاروں پر بھی زندگی کے آثار دریافت کر رہا ہے۔انسان صرف ہوا اور فضا میںہی سفر نہیں کر رہا بلکہ سمندروں کی تہہ میں سے نگینے اور زمین کا سینہ چیر کر پوشیدہ خزانے بھی نکال رہا ہے۔جہاں نظر دوڑائیںہر جانب ہر شعبہ زندگی میں آسانیاں، سہولتیں، جدتیں، ترقی نظر آ تی ہے۔مگر ان ترقیوں کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو تا ہے کہ تمام تر ترقیاں چیزوں کے نصیب میں ہی آئی ہیں ۔جہاں تک تعلق انسان کا ہے تو جناب وہ ترقی کے بجائے تنزیلی کا شکار ہوا ہے۔
آج کے دور میں چیزیں بہت آگے نکل گئی ہیں اور انسان پیچھے رہ گیا ہے جبکہ ان چیزوں کو جدت اور ترقی کا شرف بحشنے والے خود انسان ہی ہیں۔انسان کو مادی ترقی کی خواہش نے اخلاقی لحاظ سے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انسان نے تمام تر علم و ہنراور طاقتیں اس فانی دنیا کو حسین بنا نے کیلئے استعمال کیںاور باطنی دنیا سے یکسر نظر چُرا لی ۔آج لوگ اپنے نفس کی تسکین ،آرام و سکون اوردولت کی لالچ میںدوسروں کے نفع نقصان یا عزت نفس کا نہیںسوچتے تب ہی توحق تلفی ، فراڈ،چوری ڈکیتی،بھتہ خوری ،قتل و غارت جیسے بڑے بڑے جرائم کر تے پھر رہے ہیں۔دولت کی خاطرہم اتنے گر چکے ہیں کہ رشتوں کے تقدس اور اخلاقیات کو بھول بیٹھے ہیں۔بیٹے باپ کا اور بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہے ہیں ہر کوئی دھن دولت کی لالچ میں اندھا ہو چکا ہے۔لیکن یاد رہے کہ دولت سے تو ہم صرف گدے خرید سکتے ہیں نیند نہیںدولت سے عینک خریدی جا سکتی ہے نظر نہیںدولت سے ہم ادویات خرید سکتے ہیں صحت نہیںدولت سے ہم حفاظتی آلات تو خرید سکتے ہیں مگر آفات و حادثات کو ٹال نہیں سکتے دولت سے مساجد کو بھی پُر سکون بنا سکتے ہیں مگر عبادت میں دل نہیں لگا سکتے۔ اسی طرح دولت سے ہم ہر جسمانی راحت کا سامان تو خرید سکتے ہیں مگرقلبی و روحانی سکون و اطمنان نہیں خرید سکتے۔
آج انسان دولت کے خزانوں اور ہر جدید سہولت کے ہو تے ہوئے بھی بے چین و بے قراررہتا ہے۔پہلے پہل انسان جنگل کی تاریک وادیوں میں سے گزر کر صحیح سلامت منزل پر پہنچ جاتے تھے مگر آج شہروں کے چوراہوں پر بجلی کی روشنی تلے منزل کو پا لینا بھی خوش قسمتی سمجھا جا تا ہے۔اب سو چنے کی بات ہے کہ جو ترقی انسانوں نے دن رات محنت کر کے حاصل کی وہ اس دنیا میں ہی راحت وسکون مہیا نہیںکر رہی آخرت میں کیاخاک فلاح دے گی۔قابل افسوس بات ہے کہ ہم روح جیسی بلند و بر تر حقیقت کو مادی ترقی سے خوش کرنا چا ہتے ہیں۔در حقیقت جس چیز سے انسان کو دلی اطمنان و سکون میسر آئے گا وہ صرف خوف خدا اورمحبت رسولۖ ہے۔ہم اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمابرداری اور آپۖ کی ہدایات کی پیروی کرکے دنیا اور آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ دامن مُراد بھر سکتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انسان جتنا اپنے رب سے دور ہوتا جائے گاا تنا ہی سکون قلب سے محروم ہوتا جائے گا۔ہمارا سارا جسم ایک دل کی بدولت چل رہا ہے اگر یہ ہی پُر سکون نہیں تو چاہے کتنا ہی مال و دولت سہولتیں اورآسائشیں ہوں چین نہیں ملتا ۔سرورکائنات کا فرمان عالیشان ہے کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے۔اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے۔
آپ ۖ کا یہ فرمان اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جسم کا اہم یا مرکزی عضو دل ہے جس سے سارا جسم کا نظام چل رہا ہے۔اگراس دل میں خوف خدا اور محبت مصطفیۖ ہی نہیں تو ہم دنیا وی جتنی بھی ترقی کر لیں جتنا بھی مال و اسباب اکٹھا کر لیںہمیںروحانی سکون حاصل نہ ہو گا ہم یوں ہی بھٹکتے پھریںگے۔ہاں اگر اس دل میں خوف خدا اور محبت مصطفیۖپیدا ہو جائے توہمارے جسم کا ایک ایک عضو خدا کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرے گا۔ ہماری زبان جھوٹ ،چغلی،گالم گلوچ سے ،ہماری نظر بُرائی سے ،ہمارے کان گانوں،چغلی سننے سے، ہمارے ہاتھ کسی کو دھوکہ دینے نقصان پہچانے اور دل و دماغ کسی کے خلاف سازشوں کی جال بننے اور حسد سے روکا رہے گا ۔ہمارا وجود خود ہی بارگا ہ خدا وندی میںجھک جائے گا ۔ ہم تلاوت قرآن پاک ،نماز،روزہ کے عادی بن جائیںخدا کی خوشنودی کی خاطر غریبوں،مسکینوں کی مددکریں اور اختیارات میںعدل وانصاف سے کام لیںگے ۔ جس سے ہمارے ماحول اورمعاشرے میںمثبت تبدیلیاں رونماں ہونگی اور ہمیں جسمانی اور روحانی سکون میسر آئے گا۔