دمشق (اصل میڈیا ڈیسک) متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے منگل کے روز دمشق میں شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔اس دورے کو شامی صدر اور امریکا کے اتحادی عرب ریاست کے درمیان تعلقات میں بہتری کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک دہائی قبل شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے متحدہ عرب امارات کے کسی اعلی عہدیدار کا شام کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔
شامی صدر بشارالاسد کے دفتر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران صدر اسد اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زائد نے باہمی تعاون کو فروغ دینے نیز سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی وام (WAM) کے مطابق زائد نے زور دے کر کہا،” متحدہ عرب امارات شامی بحران کو ختم کرنے، ملک کے استحکام کو مضبوط کرنے اور برادرشامی عوام کی امنگوں کو پورا کرنے میں ہر ممکن تعاون کرے گا۔”
شام اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے سے کتنا قریب ہیں؟ شام اور تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ملک کے درمیان فروری 2012میں تعلقات اس وقت ٹوٹ گئے تھے جب ملک میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش ایک تباہ کن جنگ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ بشارالاسد نے بیشتر عرب ملکوں پر انہیں اقتدار سے معزول کرنے کی کوشش کرنے والے باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
تاہم حالیہ عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بظاہر بہتری کی طرف گامزن دکھائی دیے۔
دسمبر 2018 میں متحدہ عرب امارات نے دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔ رواں برس مارچ میں اس نے شام سے عرب لیگ میں واپس لوٹ آنے کی اپیل کی۔ متحدہ عرب امارات اس تنظیم سے نومبر 2011 میں شام کو معطل کرنے کی حمایت کرنے والے اہم ملکوں میں سے ایک تھا۔
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے وزیر اقتصادیات نے کہا تھا کہ وہ “شام کے ساتھ اقتصادی تعاون میں اضافہ کرنے اور نئے شعبے تلاش کرنے کے مستقبل کے منصوبوں ” کے لیے تیار ہیں۔
وزارت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات شام کا سب سے اہم عالمی تجارتی پارٹنر ہے۔ اورشام کے غیر ملکی تجارت میں اس کا حصہ 14 فیصد ہے۔
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زائد کو بشارالاسد کی ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔ دونوں رہنماوں نے باہمی تعلقات اورتعاون کو مستحکم کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا تھا۔
صرف متحدہ عرب امارات ہی وہ واحد ملک نہیں ہے جو شامی حکومت کے ساتھ تعلقات دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔
ستمبر میں بشارالاسد نے اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کے ساتھ شام کے تصادم کے آغاز کے بعد سے پہلی مرتبہ بات کی تھی۔ دونوں ملکوں نے اس ماہ کے اوائل میں اپنی اہم سرحدوں کو دوبارہ کھول دیا ہے۔
مصر، جہاں عرب لیگ کا صدر دفتر واقع ہے، نے منگل کے روز کہا کہ شام کے ساتھ بہر حال تعلقات بحال ہونے چاہئیں لیکن دمشق کو پہلے جنگ سے متاثر ہونے سے متعلق امور سمیت دیگر اہم تشویش کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے واشنگٹن کے دورے کے دوران کہا،”ہمیں یقین ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جب شام کو دوبارہ عرب لیگ میں شامل کیا جائے لیکن یہ سب کچھ اس بات پر منحصر کرے گاکہ شامی حکومت کس طرح کی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے۔”
باوجودیکہ خطے کے امریکی اتحادی شام کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کے حوالے سے اشارے دے رہے ہیں، واشنگٹن کا اصرار ہے کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے یا بحال کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتا الاّ کہ تصادم کے سیاسی حل کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پراس نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمیں اس میٹنگ اور اس سے جو اشارے دیے جارہے ہیں ان خبروں پر تشویش ہے۔ بائیڈن انتظامیہ بشارالاسد، جو کہ ایک بے رحم ڈکٹیٹر ہیں، کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے یا ان کی آبادکاری کی کوششوں کے لیے کسی طرح کی حمایت کا اظہار نہیں کرے گی۔”