سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) عرب دنیا کا پہلا جوہری پاور پلانٹ، مریخ مشن اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی۔ یہ ہیں سال 2020ء کے وہ چند اقدامات، جن سے متحدہ عرب امارات نے خود سے دولت اور رقبے میں بڑے پڑوسی ملک سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سعودی عرب طویل عرصے سے خطے میں متحدہ عرب امارات کی حمایت کے ساتھ ایک علاقائی سربراہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر تب سے، جب سے ‘عرب اسپرنگ‘ کی شکل میں جنم لینے والی علاقائی تحریکوں کے بعد ان کے ناقدین کا مکمل خاتمہ ہوا ہے۔ ان تحاریک سے خلیجی ریاستوں کی بادشاہتوں کو سیاسی اسلامی تحریک اور ایران کے اثر و رسوخ کے عروج کا خطرہ تھا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون کی حکمت عملی واضح رہی ہے، سعودی عرب ایران کے خلاف اپنی طاقت پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلامی شدت پسندی ہے۔ اس بات کا واضح فرق یمن میں جاری خانہ جنگی اور یمنی حوثیوں کے خلاف جاری جنگ میں دکھائی دیتا ہے، جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے اتحادی ہونے کے باوجود اختلافات رکھتے ہیں۔
عرب دنیا کے امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ ریاض کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان (ایم بی زیڈ) کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے۔ یورپی کونسل میں خارجہ امور کی ماہر سِنزیا بیانکو کے مطابق دونوں ولی عہد مستقبل کے حکمرانوں کی حیثیت سے ایک دوسرے سے اپنی حمایت کی امید رکھتے ہیں۔ بیانکو نے جرمن خبر رساں ادارے سے دونوں رہنماؤں کے تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایم بی ایس اپنے متحدہ عرب امارات کے ہم منصب ایم بی زیڈ کو اپنے سب سے اہم حلیف کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ مغربی اتحادیوں کے سامنے ان کے بادشاہ بننے کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
بیانکو کے مطابق اسرائیل کے ساتھ امارات کے معاہدے کے بعد مغربی ممالک میں ایم بی زیڈ کی ساکھ میں بہتری آئی ہے، لہٰذا ایم بی ایس کو ان کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ بیانکو سمجھتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات کو بھی ایم بی ایس میں ایک عمدہ اتحادی ملا ہے۔ کیونکہ، سابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف واشنگٹن کے بہت قریب تھے اور وہ قطر کے ساتھ تنازعات میں ثالثی کرنے کے لیے رضامند تھے لیکن متحدہ عرب امارات کے قطر کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں۔
جون 2017ء میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے اور قطر پر دہشت گردی اور ایران کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ کچھ ماہرین کو توقع ہے کہ دوحہ اور ابوظہبی آئندہ سالوں میں کسی سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔ تجزیہ کار خالد الجابر نے حال ہی میں ایک ویبینار اجلاس میں اس توقع کی وجہ کچھ یوں بتائی کہ امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کو اس تنازعے کو اپنی ایران پالیسی کے ساتھ دیکھنا ہو گا۔ الجابر کے بقول، ”خلیجی بحران صرف ممالک کے بارے میں نہیں بلکہ اس سے متعدد معاملات جڑے ہیں، جیسے کہ مشرق وسطی میں خارجہ، اقتصادی، سلامتی اور دفاعی پالیسی۔‘‘
خلیجی امور کی ماہر اور یورپی لیڈرشپ نیٹ ورک کی ڈائریکٹر جین کینن مونٹ کا امارات اور عرب دنیا کی دیگر بادشاہتوں میں فرق کے بارے میں کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مذہبی رواداری ہو سکتی ہے لیکن سیاسی رواداری نہیں ہے۔ ان کے بقول، ”سن 2011 کے بعد امارات میں بھی ایسی فضا پیدا کی گئی ہے، جہاں لوگ تنقید کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔‘‘
آئندہ برس متحدہ عرب امارات کی پچاسویں سالگرہ منائی جائے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ گولڈن جوبلی کے موقع پر وہ آئندہ آنے والے پچاس سالوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سن 2022 سے 2023ء کے عرصے کے لیے ایک غیر مستقل نشست کے لیے متحدہ عرب امارات بھی حصہ لے گا۔ ماہرین کے مطابق ان اقدامات سے یہ حقیقت مستحکم ہوتی ہے کہ امارات عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی تیاری میں ہے۔