تحریر : تنویر کھٹانہ برطانیہ میں صحافت کے حوالے سے پچھلے کچھ عرصے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ جی بالکل بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ کچھ لکھا جائے لیکن آج فیس بک پر ایک پوسٹ نے مجھے پھر سے تحریک دی اور میں نے یہ جسارت سنئیر اور جونئیر صحافیوں کے حوالے سے کی۔ موضوع سے کہیں آگے پیچھے نہ ہو جاوں لیکن ایک بات ضرور کہوں گا پاکستان سے منسلک صحافت میں ہی سنئیر کا رواج ہے اور کسی بھی ملک کے صحافی کے ساتھ آپ کو سنئیر نظر نہیں آۓ گا اور جونئیر یہاں کوئی بننا نہیں چاھتا۔
خیر پچھلے ہفتے وسیم بادامی صاحب سے سوال کیا کہ حضور برطانیہ میں تمام میڈیا ہاوسز کے کچھ نمائندے اردو زبان سے ہی نا واقف ہیں اور کچھ تو شاید لکھ بھی نہیں سکتے کیا یہ صحافت کے ساتھ ظلم نہیں جن لوگوں کو آپ فیس آف پاکستان بنا رہیں ہیں وہ قومی زبان لکھنے سمجھنے اور بولنے سے بھی عاری ہیں۔ تو وسیم کا جواب تھا کہ چینلز کی کچھ کمرشل مجبوریاں ہوتی ہیں جس کا مطلب ہوا کہ معیار جائے تیل لینے ہمیں بزنس چاہیے ہاں لیکن معیار پر انھوں نے ضرور کہا کہ بالکل معیار کو بہتر ہونا چاہیے سوال کیا کہ حضور آپ کچھ کردار ادا کیجیے تو کہنے لگے کہ میں نے ایک دو بندے جو واقعی اچھے تھے کو آگے لے کر آیا ہوں۔
خیر یہ تو معیار اور معیار صحافت کی بات ہوئی اب ایک بھائی صاحب نے اسی محفل میں اپنے انٹرویو کے فیس بک سٹیٹس کے ساتھ معصومانہ کو ماسومانہ لکھ کر پوسٹ کیا تو عجب حیرانگی ہوئی کہ کیا برطانیہ میں تعلقات معیار ہے صحافت کا یا کہ واقعی کچھ معیار بھی ہے۔ کسی بھی اخبار کے ساتھ منسلک ہونے کے لیے آپ کو تعلیمی قابلیت نہیں بہر حال اشتہارات کی ضرورت ہے میں اس بات سے انکاری نہیں کہ برطانیہ میں اشتہارات کی بدولت ہی اخبارات چلتے ہیں لیکن کیا یہ معیار پر سمجھوتا نہیں ۔ اگر میں کسی سے پیسے لے کر خبر لگاؤں یا اشتہار لگاؤ کل اس کے خلاف میں خبر کیسے لگا سکتا ہوں۔
Journalism
عجیب سلسلہ ہے ایک صاحب سے اس دن بات ہوئی موصوف کا کہنا تھا کہ صحافت صرف شوق ہے یہ کوئی جاب نہیں ہے اسے مشغلہ کہہ لیجیے تو جب یہ ہمارے معیار ہیں تو ہم کیا کمیونٹی ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ ہمارے اخبارات خبر سے کم بیانات سے زیادہ بھریں ہیں۔ راجہ صاحب ، چوھدری صاحب نے یہ کہا اور بس ایونٹس کی نیوز کیا خبر ہے۔
بہت سے سنئیر لوگ جو اس شعبے سے وابستہ ہیں آج بھی تفصیلات کے مطابق لکھتے ہیں حضور والا یہ کرائم رپورٹنگ ہے رپورٹنگ نہیں۔ ہماری بحث پریس کلب کا کھلنا یا بند ہونا ہے صحافی کی معاشی فلاح و بہبود نہیں اس کی تکنیکی ٹریننگ نہیں۔ کلبز بنانے کا مقصد مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا ہے ہمارے ہاں عہدوں کی لڑائی زیادہ ہے۔ اگر کوئی واقعی اچھا کام کر رہا ہے تو اچھی بات لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی مل کر ان مسائل کا حل ممکن ہے ایک صحافی کا کام خبر ڈھونڈنا ہے اور جیسے کسی زمانے میں مختلف شعبہ جات تھے ویسے ہی ہونے چاہیے لیکن یہاں ہر صحافی سپورٹس سے لیکر ہر دوسرے شعبہ کا ماسٹر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے مانچسٹر میں خان صاحب کی آمد ہوئی تو صحافیوں کو سوالات سے زیادہ سیلفیوں کی فکر تھی اور بعد میں ان کی تیسری شادی کا شوشا اور اتنے اہم دورے کو نان سیریس ایشو بنا کر ختم کر دیا گیا۔ صحافت صحافت اب ایک دو روز سے جعلی اصلی اور جانے کیا کیا نام دئیے گئے کچھ صحافیوں کو تو جناب صحافت تو نام ہی ہے تحقیق کا کیجیے تحقیق ثبوت سب کے سامنے لائیے لیکن ہم الزام پر یقین رکھتے ہیں۔ دو نمبر ایک نمبر سنئیر جونئیر بس یہ ہی بحث ہے معیار کا ذکر نہیں۔