برطانیہ کے والدین

Music

Music

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ہم شرمندگی اور بے بسی کے دریا میں غرق تھے کہ اچانک میزبان دروازہ کھول کر اندر آگیا اور آتے ہی کہا بیٹا پولیس کو فون کر کے فوری بلائو وہ پاگل سائیکو بوڑھی میوزک بند کرنے کو بلکل بھی تیار نہیں ہے میزبان کا چہرہ غصے کی آگ سے تپ رہا تھا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ اِس گوری بوڑھی نے ہماری زندگی جہنم بنا رکھی ہے ہم کئی بار پولیس کو رپورٹ بھی کر اچکے ہیں کئی بار ہماری لڑائی بھی ہو چکی ہے ہم کئی دفعہ اِس کی منتیں بھی کر چکے ہیں سوری بھی کر چکے ہیں لیکن یہ کسی بھی طرح باز نہیں آتی اِس کا جب جس وقت دل کرتا ہے یہ باآواز میوزک لگا لیتی ہے اور خود اچھل کود بھی کرتی ہے جسے یہ ڈانس کا نام دیتی ہے یہ کئی بار پولیس سے وعدہ کر چکی ہے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کر ے گی لیکن جب کبھی بھی اِس کو ڈپریشن یا تنہائی کا دورہ پڑتا ہے یہ عجیب و غریب حرکتیں کرتی ہے ہم اِس کے بڑھاپے اور خدا خوفی کی وجہ سے بہت زیادہ درگزر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اِس کو ہم پر بلکل بھی ترس نہیں آتا۔

اِس کا جب دل کرتا ہے ہماری زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ اِس نیم پاگل بوڑھی گوری نے ہمیں بہت زیادہ تنگ کیا ہوا ہے ہم اس کے پاگل پن کی وجہ سے کئی بار پولیس کو بلا چکے ہیں لیکن یہ وعدہ کر کے پھر مُکر جا تی ہے اِنہی با توں کے دوران پو لیس آگئی تو میں بھی میزبان کے ساتھ گوری کے گھر میں چلا گیا وہاں میں نے دیکھا 70 سال سے زیادہ پتلی اور کمزور بوڑھی گوری جس کے چہرے پر کریلے کے خول جیسی جھریوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ اُس کی آنکھوں کے حلقے اُس کے پرانے ڈپریشن کا اظہار کر رہے تھے پو لیس نے آتے ہیں میوزک بند کیا اور بوڑھی گوری سے بات چیت شروع کر دی پولیس کی بات چیت سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ پہلے بھی کئی بار اس گوری سے بات کر چکی ہے گو ری بار بار ایک ہی فقرہ دہرائے جا رہی تھی I want Listener مجھے کوئی ایسا انسان چاہیے جو میری بات سنے وہ بار بار اپنی بیٹی کو یاد کر رہی تھی پھر گوری نے رونا شروع کر دیا کہ سب مجھے چھوڑ گئے ہیں کوئی میرے پاس نہیں ہے میں کس سے باتیں کروں مجھے کوئی ساتھی چاہیے جو میری با تیں سنے جو میرا درد سنے جو میری تنہائی کا ساتھی ہو ۔ پولیس نے جب اولڈ ہائوس لے جانے کی دھمکی دی تو گوری ڈر گئی اب اس نے پھر وعدہ کیا کہ آئندہ وہ باآواز میوزک نہیں سنے گی۔

Police

Police

وہاں پر پولیس اور بعد میں میزبان کی باتوں سے جو حقیقت سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اِس گوری کا میاں جوانی میں ہی اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلا گیا اِس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی بیٹا بھی جوان ہوتے ہی گھونسلا چھوڑ کر پرواز کر گیا رہ گئی بیٹی جس کے ساتھ اِس گوری کی بہت زیادہ انسیت تھی جب وہ بلوغت کو پہنچی تو اُس نے بھی راہ فرار اختیار کی بچوں کے جانے کے بعد گوری نے کتا پال لیا جس سے اِس نے اپنی تنہائی کا علاج کرنا چاہا لیکن پچھلے سال کتا بھی اپنی عمر پوری کر گیا تو اُس دن سے یہ شدید تنہائی اور ڈپریشن کاشکار ہے ۔ تنہائی کا زہر ہڈیوں تک اتر گیا ہے اب تنہائی کے زہر نے ڈپریشن کی شکل اختیار کرلی ہے ڈپریشن اور تنہائی جب حد سے بڑھ جاتے ہیں تو یہ نیم پاگل ہو کر مختلف سہارے ڈھونڈتی ہے اور پھر میوزک اور دوسری اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتی ہے۔ اس میوزک اور شور میں یہ اپنی بیٹی اور بیٹے کو یاد کرتی ہے انہیں واپس بلاتی ہے لیکن یہاں پر بچوں اور والدین کے درمیان وہ رشتہ بنتا ہی نہیں جس کے سہا رے اولاد بڑھاپے میں والدین کو سنبھالتی ہے۔

بوڑھے گورے پھر یا تو اولڈ ہائوسسز میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر خصوصی اجازت لے کر اِس طرح گھروں میں رہتے ہیں۔ یہاں پر ڈاکٹر اور نرس آکر اِن کا معا ئنہ کرتے ہیں اِیسے بوڑھوں کو خصوصی آلے دئیے جاتے ہیں جن کے الارم قریبی ہسپتال میں ہوتے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری طور پر ڈاکٹر یا نرس اِن کو دیکھ سکے ۔ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ یہ بوڑھے دن رات ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہوتے ہیں اِن کو روزمرہ ضروریات کے لیے گو رنمنٹ کی طرف سے الائونس دئیے جاتے ہیں اِن کی ضرورت کا ریاست پو ری طرح خیال کرتی ہے لیکن یہ پھر بھی اِن کے دان رات نہیں گزرتے اِن میں سے اکثر تنہائی اور بڑھاپے سے تنگ آکر خودکشی کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہاں کے والدین اور بچوں میں اتنا زیادہ فاصلہ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک ہی شہر میں رہنے کے با وجود یہ کئی کئی سال ایک دوسرے سے نہیں ملتے ۔ یہاں والدین کا اپنے بچوں سے صرف ٹیلی فون اور کارڈ کا ہی رشتہ یا رابطہ ہوتا ہے یہاں کے بچے بہت مشینی ہوگئے ہیں یہ اگلے پانچ یا دس سال کے اکٹھے پیسے یکمشت کسی کو رئیر سروس کو جمع کروا دیتے ہیں اُس کورئیر سروس کا بس یہ کام ہو تا ہے کہ یہ خاص موقع یا دن پر بچوں کی طرف سے کارڈ یا پھول والدین کو پہنچا دیتے ہیں۔

Elderly Parents

Elderly Parents

یعنی کورئیر سروس کو پیسے دینے کے بعد بچے خاص دن کا بھی خیال نہیں کر تے۔ اِیسے بوڑھے والدین یا تو میوزک سنتے ہیں یا پھر بالکونیوں میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو دیکھتے ہیں آنے جانے والوں سے مسکراہٹوں کا یا ایک آدھ فقرے کا تبادلہ ہی ان کی زندگی اور بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ رہ جاتا ہے اگر کبھی بھول کر کسی ادارے یا کمپنی یا رانگ فون آجائے یہ جھپٹ کر فون اٹھا تے ہیں اور لمبی باتیں کرنا چاہتے ہیں یا بازار سے بولنے والے کھلونے لے آتے ہیں ان کو چلا کر ان سے باتیں کرتے ہیں۔

اپنی تنہائی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں گوری بوڑھی ماں کا المیہ اندر تک ادھیڑ گیا میں پریشان تھا کہ نوجوان نسل اپنے والدین کو کیوں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور پھر ایک دن اللہ تعالی نے میرا مسئلہ بھی حل کر دیا لندن میں کلاسیکل میوزک کی سہانی شا م مجھے ایک 40 سالہ گوری ملی جس کو ریکی اور پامسٹری سے بہت شقف تھا۔ جب گپ شپ سٹارٹ ہوئی تو میں نے اس سے بر طانیہ کی اس تلخ حقیقت کے بارے میں پوچھا تو اس نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور قہقہ لگا کر بولی سر یہاں پر والدین اور اولاد کا رشتہ استوار ہی نہیں ہوا۔

Wine Clubs

Wine Clubs

یہاں جب ہمارے والدین جوان ہوتے ہیں تو وہ اپنی جوانی کے نشے میں اس طرح دُھت ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کا پتہ ہی نہیں ہوتا یہاں جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے تو ماں کئی خاوند بدل چکی ہوتی ہے بہت سارے بچے تو اب بغیر شادی کے ہوتے ہیں یہاں پر والدین ویک اینڈ پر شراب خانوں اور کلبوں میں وقت گزارتے ہیں یہاں والدین سے ہا تھ ملانے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اکثر والدین سے گفتگو کر نے کے لیے سیکریٹری سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہاں پر بچپن اور لڑکپن والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی طرح گزرتا ہے۔ والدین جب جوانی سے ادھیڑ عمری میں داخل ہو تے ہیں تو ان کے جسموں میں ابھی زندگی کی تھوڑ ی بہت حرارت باقی ہوتی ہے وہ اپنی اسی حرارت اور لذت میں مدہوش ہوتے ہیں جب بچے پرندوں کی طرح پرواز کر جاتے ہیں اور والدین کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ بچے گھونسلا چھوڑ گئے ہیں۔ نہ ہمارے والدین نے ہمیں روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی ہم نے رکنے کی کوشش کی۔

بچپن میں ہمیں اِن کی بہت ضرورت تھی انہوں نے خیال نہیں کیا اور آج جب انہیں ہماری ضرورت ہے تو ہم بھی اسی تہذیب کلچر اور زندگی میں غرق ہیں جس میں کل ہما رے والدین تھے۔ جس طرح کل وہ ہمیں چیک اور گفٹ بھیجا کرتے تھے اِسی طرح آج ہم ان کو چیک کا رڈ اور گفٹ بھیج دیتے ہیں ہما رے درمیان اولاد والدین کا رشتہ یہی ہے جو کل وہ نبھا رہے تھے اور آج ہم نبھا رہے ہیں اور پھر میں پاکستان آگیا اور آتے ہیں ماں کے دربار میں پیش ہوگیا میری ماں کے چہرے پر محبت، معصومیت اور مامتا کے پھول کھلے ہوئے تھے جن کی مہک سے میری روح وجد میں آکر رقص کر نے لگی۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Old Woman

Old Woman