اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ انتہائی اہم سنگ میل ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی واحد ادارہ ہے جو امن حاصل کرنے میں پوری دنیاکی مدد کرسکتا ہے دولکن اوسکر کو جنرل اسمبلی کا 75واں صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور انکی ماہرانہ قیادت کا بھی معترف ہوں جنہوں نے کورونا کے خلاف بہترین خدمات سرانجام دی ہیں اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری چند ایک گذارشات ہیں مگر یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں قوم کی بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اٹھایاتھا اور کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑائیں جا رہی ہیں۔ اور یہ واقعی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھارت اور اسرائیل میں تمام بین القوامی قوانین کی نہ صرف دھجیاں آرائی جارہی ہے بلکہ عالمی رہنماؤں کا منہ بھی چڑایا جارہا ہے اور ان طاقتوں کے درمیان اسلحے کی نئی دوڑ چل رہی ہے۔
فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیعی پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودبایاجا رہاہے اس لیے دنیا بھر میں شہریوں کو حقوق دینے کیلئے اقوام متحدہ اپنے قوانین پر عمل کروائے اور اس وقت ہمیں سب سے زیادہ امن اور استحکام کی ضرورت ہے ہم نے دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے ہزاروں جانیں قربان کردی ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور مسائل کا بات چیت سے حل کرنا ورنہ نوم چومسکی کے مطابق پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بار پھر دنیا خطرے میں ہے اس لیے جوہری جنگ کے خطرات ماحولیاتی تبدیلی اور مطلق العنانیت جیسے مسائل سے مشترکہ نمٹنا ہوگا، بین الاقوامی اصولوں کے تحت مسائل سے نمٹنے کیلئے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا مسائل کو محاذ آرائی اور طاقت سے حل نہیں کرسکتے جس طرح بھارت کررہا ہے آر ایس ایس نے 1992 میں بابری مسجد شہید کی 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا یہ تمام کارروائیاں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی نگرانی میں ہوئیں۔ 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس میں 50 سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا۔ آسام میں بیس لاکھ مسلمانوں کو امتیازی قوانین کے ذریعے شہریت سے دوچار کیا گیا۔ اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز رویوں کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ جنرل اسمبلی اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لئے رائے شماری کرانے اور عالمی دن مقرر کرے بد قسمتی سے آج بھارت پر آر ایس ایس کا انتہا پسند نظریہ غالب ہے۔ بھارت دنیا میں اسلامو فوبیا کو فروغ دے رہا ہے۔
بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو برابر کا شہری نہیں مانا جاتا۔ گاندھی اور نہرو کے سیکولر نظریے کو ہندوراشتڑیہ کے نظریہ سے بدل دیا گیا ہے 72 سال سے بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کے بر عکس جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارت نے غیر قانونی اور یک طرفہ طور پر مقبوضہ علاقوں کی حیثیت بدلنے کی کوشش کی۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کے لئے اضافی فوج تعینات کی گئی۔ ہزاروں شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مکمل کرفیو نافذ اور مواصلاتی رابطے معطل کئے گئے۔ پوری آبادی کی تباہ کرنے سمیت مجموعی سزائیں نافذ کی گئیں۔ جعلی مقابلوں میں سینکڑوں بے گناہ نوجوان کشمیریوں کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ کشمیری میڈیا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو حراساں اور خوف زدہ کیا جا رہا ہے ان مظالم کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کشمیر انسانی حقوق کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹس گواہ ہیں بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیق کرے اورانسانیت کے خلاف ریاستی دہشتگردی اور سنگین جرائم میں ملوث بھارتیوں کو سزادی جائے کیونکہ اس ظالمانہ مہم کا مقصد آر ایس ایس، بی جے پی کے جموں و کشمیر کے خود ساختہ حتمی حل کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فوجی محاصرے کے بعد مقبوضہ علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی اقدام کشمیریوں کی خصوصی پہچان کو مٹانے کی ایک کوشش ہے۔
بھارتی اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کے تحت ممکنہ استصواب رائے کا نتائج متاثر کرنا ہے۔ بھارتی اقدام اقوام متحدہ کے منشور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ علاقے کا آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے۔ بہادر کشمیری کبھی بھی بھارتی قبضے اور مظالم کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ کشمیری عوام منصفانہ مقصد کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیریوں نے بھارتی قبضے سے آزادی کے لئے نسل درنسل اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام حق خود ارادیت کے لئے کشمیریوں کی جائز جدوجہد میں ان کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غیر قانونی اقدامات اور مظالم سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بھارت جوہری خطے میں پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی اشتعال انگیزی اور خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کر رہا ہے اور پاکستان نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے فلیک آپریشن سمیت دیگر اشتعال انگیز کارروائیوں سے بربر آگاہ رکھا ہے۔
اگر بھارت کی فسطائی حکومت کے خلاف کوئی جارحیت کی تو پاکستانی قوم اس کا بھرپور جواب دے گی پاکستانی قوم اپنی سالمیت کی بقاء کے تحفظ تک جنگ لڑے گی جبکہ مسئلہ کشمیرکے حل تک جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا سلامتی کونسل کو ہر صورت ایک تباہ کن تنازعہ کو روکنا اور اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانا ہوگا سلامتی کونسل کو مشرقی تیمور میں اپنا موثر کردار ادا کر چکی ہے سیکیورٹی کونسل نے گزشتہ تین مرتبہ جموں و کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لیا اسلیے اب سلامتی کونسل کو بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر نسل کشی کی لٹکتی تلوار کو روکنے کے لئے آگے آنا چاہیے پاکستان نے ہمیشہ پر امن حل کی بات کی ہے اوربھارت 5 اگست کو کئے گئے اقدامات واپس لے بھارت فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر کے حل پر متفق ہو جبکہ پاکستان نے افغان امن سہولت کاری کے جو 29 فروری2019 کو امریکہ طالبان امن کی صورت میں سامنے آیا پاکستان کو انتہائی اطمینان ہے کہ اس نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ افغان رہنماؤں کو جنگ سے تباہ حال ملک میں قیام امن کے لئے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
افغان فریقین کے درمیان 12 ستمبر سے شروع ہونے والے مذاکرات میں مجموعی وسیع تر جامع سیاسی حل نکالنا چاہیے۔تمام افغان امن عمل افغانیوں کے درمیان اور ان کے زیر سرپرستی ہونا چاہیے۔ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے جبکہ فلسطین کا مسئلہ آج تک بھی رستا ہوا زخم ہے۔ مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے لئے اس مسئلہ کا منصفانہ اور پائیدار حل ناگزیر ہے۔ فلسطینی علاقے کا غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کی صورت میں خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں عالمی تسلیم شدہ حدود کے مطابق دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔ جو 1967 سے قبل کی سرحدوں پر واپسی اور القدس الشریف ایک متحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہیں۔اقوام متحدہ آج بھی عالمی تنازعات کے حل، امن و سلامتی کی ترویج کے لئے مجموعی اقدامات کا بہترین ادارہ ہے۔ میں سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ عالمی تنازعات کی روک تھام کے لئے آگے بڑھیں انہیں سلگتے ہوئے علاقائی تنازعات اور دیرینہ مسائل کو حل کے لئے سربراہوں کی سطح کے اجلاس بلانے چاہئیں۔