تحریر: محمد ذوالفقار اگر چودہ نومبر تاریخ کا سیاہ دن گردانا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ جس دن روشنیوں کے شہر پیرس میں خودکش حملوں کی شکل میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔جس میں میڈیا ذرائع کے مطابق دو سو کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور تقریبادو سو کے قریب افراد زخمی بھی ہیں ۔جن میں سے سو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔جبکہ سرکاری ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو انتیس ہے اور مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ یعنی داعش جو کہ شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم کے طور پر سر گرم عمل ہے نے قبول کی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ شائد یہ ہے کہ فرانس داعش کے خلاف کاروائی کرنے والی قوتوں کے ساتھ عملی طور پر پیش پیش ہے۔اور داعش کی اس کاروائی کے بعد انہوں نے مزید کاروائیاں کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔جس کے بعد یورپ کے ساتھ ساتھ ایشیائی ممالک نے بھی سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔یہ تو تھی ہولناک خبر جس نے اقوام عالم کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔اور اس تکلیف کو مجھ سمیت ہر اس شخص نے محصوص کیا ہے جو انسانیت کے لیے درد دل رکھتے ہیں۔اسی طرح سماجی رابطوں کی سائٹس پر فرانس کے جھنڈے کی تصویر کو اپنے پروفائل کی ڈی پی بنا کر اظہار یکجہتی بھی کیا گیا۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ اس پر لوگوں کے مختلف قسم کے تجزئیے بھی ملے۔جس میں تقریبا ایک بات پر تو سب کا اتفاق تھا کہ یہ حملہ انسانیت پر حملہ ہے مگر جس بات پر اختلاف تھا وہ یہ کہ جس طرح اقوام متحدہ ، امریکہ اور اس کے اتحادی اس حملے کے بعد ایک ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔کیا اس سے پہلے کئی ممالک میں حملے ہوئے ہیں وہاں پر بھی یہ اسی طرح کھڑے ہوتے ہیں یا نہیں ۔جواب اس کا نفی میں آئے گا۔اور بات اگر یہیں پر ختم ہو جاتی تو کافی تھا مگر پوپ نے تو اسے تیسری جنگ عظیم کی طرف پیش قدمی کا نام بھی دے دیا۔اور اگر پوپ کے اس بیان پر غور کیا جائے تو سازش کی بو آتی ہے۔ایک طالبعلم کی حیثیت سے ان حالیہ بیانات کا جائزہ لیتے ہیں۔
Barack Obama
امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ فرانس کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔بلکل اسی سے ملتا جلتا بیان برطانیہ کے سربراہ ڈیوڈ کیمرون کا ہے۔اب یہ جنگ انسانیت کی جنگ بن گئی ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ حملہ فرانس ،یورپ یا پیرس کا نہیں بلکہ انسانیت پر حملہ ہے۔اور اسی سے ملتا جلتا بیان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا بھی ہے۔اور اگر یہ واقعی انسانیت کے علمبردار ہیں تو اٹھسٹھ سال گزر جانے کے باوجود مسئلہ کشمیر کیوں نہیں حل ہو سکا۔آج تک لاکھوں کشمیریوں کا ناحق خون کیا گیا۔
کیا کشمیری انسان نہیں یا پھر معاملہ کچھ اور ہے۔اسی طرح اگر فلسطین کی بات کی جائے تو سالوں تک فلسطین کے صدر یاسر عرفات ان کے پیچھے بھاگتا رہے مگر ایک نہ سنی گئی ۔اور آج تک فلسطین اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے ۔یہ نیتن یاہو جنہیں آج انسانیت یاد آ رہی ہے۔اسوقت ان کی انسانیت کہاں چلی جاتی ہے جب یہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔انسانیت کا قاتل انسانیت کی بات کر رہا ہے۔اور اگر برطانیہ کی بات کی جائے تو حال ہی میں ٹونی بلئیراپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں۔کہ عراق پر حملہ کرنا ہماری غلطی تھی ان کے پاس نا تو کیمیائی ہتھیار تھے اور نہ ہی اسامہ بن لادن وہاں پر موجود تھا۔اور یہیں پر بس نہیںبلکہ وہ تو معافی بھی مانگنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔
Pope
مگر کیا ان کی یہ معافی ان بے گناہ لوگوں کو واپس لا سکے گی جو ان کی خودساختہ جنگ کا لقمہ اجل بنے۔ اور کبھی کبھی تو یہ معافی بھی مجھے ڈھونگ لگتی ہے۔کیونکہ یہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف رہی ہیں۔جس کی ایک جھلک اس وقت بھی نظر آئی تھی جب افغانستان پر حملہ کرنا تھا تو اسوقت پوپ نے صلیبی جنگ کا عندیہ دے دیا تھا جو کہ بعد میں بیان واپس لے لیا گیاتھا۔اور رہی بات دوستی اور ہمدردی کی تو یہودونصاری کو کبھی بھی مسلمانوں سے نہیں ہوئی۔وگرنہ یہ جمہوریت اور انسانیت کے دعوے دار وں کو برما ،شام ،فلسطین اور کشمیر میں انسانیت کا قتل کیوں نطر نہیں آتا۔مجھے یاد ہے جب گیارہ ستمبردوہزار ایک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر دو جہاز ٹکرائے تھے۔اور پھراس حملے کو بنیاد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔
حالانکہ نا تو اس حملے کا تعلق افغانستان سے تھا اور نا ہی آج تک ثابت ہو سکا ہے۔ اس کے بعد عراق اور شام کو دہشت گردی کی آگ میں جونکا گیا۔اور پھر لیبیا ،یمن کے موجودہ حالات بھی انہی مہذب قوموں کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں۔۔درحقیقت پاکستان کا جغرافیہ دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔اسی لیے امریکہ نہیں چاہتاکہ پاکستان میں استحکام آئے۔یہی وجہ ہے ایک طرف وہ پاکستان کو ہمایت کا یقین دلاتا ہے اور دوسری طرف اس نے ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل دیا ہے۔اور اس دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے اب تک ہزاروں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔جس پر نا تو کبھی امریکہ کی انسانیت جاگی ہے اور نا ہی اقوام متحدہ کی۔
United Nations
دراصل یہ خود ہی دہشت گرد پیداکرتے ہیں اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اور پھر خود ہی ان کے خلاف کاروائی کا بہانہ بنا کر مسلم ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کا اگر کوئی کردار ہے تو پھر ان تمام تر حالات کا ذمہ دار کون ہے؟کیا یہ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار نہیں ہے؟افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈران اپنی غیرت کا سودہ کرتے ہوئے ذرہ بھی دیر نہیں کرتے۔اور یہی اسوقت کے ہمارے بزدل حکمران جو خود کو کمانڈو کہتا ہے اس نے کیا تھا۔جب افغانستان پر حملہ ہوا تھا۔اپنے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیئے۔جس کا خمیازہ پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
گو کہ ہم پیرس کے اس سانحے میں ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔لیکن پھر بھی خدشہ ہے کہ نائن الیون کی طرح اس واقعے کا رخ بھی کہیں مسلم ممالک کی طرف نا موڑ دیا جائے۔اور امریکہ پھر سے اقوام متحدہ کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔اس کے لیے ہمیں سوچنا ہوگا۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین