ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کو اسلحے کی فروخت غیر معینہ مدت تک کے لیے معطل کرنے سے متعلق امریکی قرارداد مسترد ہو گئی ہے۔ یہ پیش رفت ایران کے معاملے پر امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ملکوں کے مابین تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کو اسلحے کی فروخت پر عائد پابندی میں توسیع سے متعلق ایک امریکی قرارداد جمعہ چودہ اگست کو واضح اکثریت کے ساتھ مسترد کر دی گئی۔ کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار ہوتے ہیں مگر کونسل کے مستقل پندرہ ارکان میں سے صرف دو نے اس امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکا کے بیشتر یورپی اتحادیوں سمیت کل گیارہ ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا جب کہ روس اور چین نے قرارداد کو مسترد کر دیا۔
سن 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی ڈیل کے تحت تہران حکومت کو ‘کنونشنل ہتھیاروں کی فروخت پر پچھلے تیرہ سالوں سے چلی آ رہی پابندی کی مدت رواں برس اٹھارہ اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔ امریکا نے سن 2018 میں یکطرفہ طور پر ڈیل سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور تب ہی سے یورپی شرکا ڈیل کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ واشنگٹن حکومت نے تازہ قرارداد کے مسودے میں ایران کو اسلحے کی فروخت پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کا تذکرہ کیا تھا۔
تہران حکومت اس پیش رفت کو ایک کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے ہفتے کو اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ”اقوام متحدہ کی پچھتر سالہ تاریخ میں امریکا اس قدر تنہا کبھی نہیں ہوا۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس پیش رفت پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی امن کے لیے فیصلہ سازی میں ناکامی معافی کے لائق نہیں۔ کونسل میں جرمن سفیر گنٹر ساٹر کے بقول اس معاملے پر کسی اتفاق رائے اور ایک ایسے حل تک پہنچنے کے لیے مزید وقت درکار ہے جو تمام ارکان کو منظور ہو۔
دوسری جانب سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کے مسترد ہونے کے بعد ایسے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ امریکا ایران کے خلاف پابندی برقرار رکھنے کے لیے شاید غیر روایتی ‘اسنیپ بیک کا طریقہ کار اختیار کرے۔ ایسی اطلاع بھی ہے کہ اس ضمن میں آئندہ ہفتے تحریری کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس ممکنہ پیش رفت سے سلامتی کونسل کسی شدید سفارتی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔