تحریر : غلام حسین محب دوسری جنگ عظیم کے دوران جب امریکہ نے آخری آپشن استعمال کرتے ہوئے جاپان پر ایٹمی بم گرائے تو یہ پہلا اور آخری ایٹمی حملہ ثابت کرنے کے لیے اقوام عالم نے ایک ایسے عالمی ادارے کی ضرورت محسوس کی کہ جو ملکوں کے درمیان صلح اور امن وامان کی فضاء قائم کرنے کے لیے کردار ادا کر سکے اور ساتھ ہی اُن ملکوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہوجو کسی دوسرے ملک میں مداخلت یا حملے کا مرتکب ہو۔طاقتور ممالک کو لگام دینے کے لیے ایٹمی کنٹرول معاہدہ پر دستخط کو لازمی قرار دیا گیا ۔اسی مقصد کے لیے ممالک کا جو مشترکہ ادارہ وجود میں آیا وہ ”UNO” United Nation Organizationیعنی اقوام متحدہ کہلایا۔اقوام متحدہ ایک قسم کی عالمی اسمبلی ہے جس میں تمام ممالک کے نمائندگی ہوتی ہے اور ممبر ممالک کے تمام مسائل کے حل کے لیے راہیں نکالنا اور اقدامات کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔اور ساتھ ہی جہاں جہاں عوام کو غلام بنا کر اُن پر ظالمانہ بادشاہتیں قائم ہیں وہاں عوام کا ساتھ دیکر جمہوریت قائم کرنے میں مدد فراہم کرنا وغیرہ۔1945 ء سے آج تک اقوام متحدہ کی کار کردگی پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا کوئی ملک نظر نہیں آتا جہاں اس ادارے نے کوئی مثبت کردار ادا کیا ہو ہاں البتہ جہاں امریکہ نے ضرورت محسو س کی وہاں یو این او نے بھر پور کارروائی کی۔ اس کارکردگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ آزاد ادارہ نہیں رہا،بلکہ جاپان پر ایٹم بم گرا کر عالمی جنگ کو اپنے نام کرنے والے امریکہ نے یو این کو اپنا زیریں ادارہ کے طور پر سپورٹ کیا اور جہاں چاہا اور جس طرح چاہااسے استعمال کیا اور خود ہی دنیا کا جج،جیوری اور جلاد بنا رہا۔بقول شاعر ا قر با میرے کرے قتل کا دعویٰ کس پر وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرا
اب ہم یو این اور عالمی برادری نے دینا بھر میں لگنے والی آگ اور جنگوں میں کیا رول پلے کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے یعنی کوئی رول نہیں اور اگر تھوڑا بہت کچھ کیا ہے تو وہاں مزید خون خرابہ اور بدامنی کو ہوا دی گئی ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ” دو چڑیا آپس میں لڑ رہی تھیں بلی نے دیکھا تو جھپٹ کر دونوں کو پکڑلیا اورچھٹ کھالیا ،کھا کر بلی نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں نہ آتی تو دونوں ایک دوسرے کو مارڈالتیں”۔ اب اگر یو این او کی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ دیکھیں تو ویتنام، فلسطین، کشمیر، افغانستان،میانمار،یوکرائن، ایران عراق، شام ،یمن،سعودیہ،لیبیا،مصر،تیونس غرض دنیا بھر میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اقوام متحدہ نے کوئی اطمینان بخش کارکردگی دکھائی ہو۔ ان میں سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ کہ جہاں جہاں کسی ملک یا قوم کے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو یا ہورہی ہو وہاں یو این او نے ظالم کا ساتھ دیا ہے۔اور اس کی کئی مثالیں ہیں۔
ایک عرصے سے کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور نشانے پر وہ کشمیری ہیں جوآزادی چاہتے ہیں اور بچے بوڑھے سب سراپا احتجاج ہیں۔اسی طرح برما ایکایسا ملک ہے جہاں کی حکومت کو نہ عالمی برادری سے کوئی کام ہے نہ کسی میڈیا کو اس ملک کی خبریں دینے کی جرأت ہو سکتی ہے تو ایسے میں یو این او کہاں ہے ؟ اگر امریکہ کسی ملک کو ناپسندیدہ ملک قرار دیکر اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہے تو یو این او نہایت عجلت میں منظوری دے دیتی ہے اس سے کیا مظلب اخذ کیا جا سکتا ہے سِوائے اس کے کہ یو این امریکہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے ۔یہ تو اچھا ہے کہ ”غلطی” سے چین کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے ورنہ اب تک پاکستان اور چائنہ دنیا سے مٹ چکے ہوتے۔
United Nations
ایک واضح اور سیدھی سی مثال انڈونیشیا میں عیسائی سٹیٹ کا قیام ہے جو راتوں رات عالمی برادری سے تسلیم بھی کرائی گئی اور اُسے آزادی دی گئی مگر کشمیر جہاں صرف گزشتہ چار ماہ کے دوران ایک لاکھ تک لوگ شہید کر دیے گئے اور درجنوں زخمی اور معذور کردیے گئے ، جبکہ برما میں وہاں کی فوج کھلم کھلا دہشت گردی کرکے اقلیتی مسلمانو ںکاقتل عام کر رہی ہے ان کا نہ کسی نے نوٹس لیااور نہ کسی نے ضرورت محسو س کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر اور برما اس دنیا میں نہیں بلکہ کسی سیارے کے ممالک ہیں جہاں تک یو این او کی رسائی ممکن نہیں۔آج کی سب سے بڑا اور دردناک واقعہ شامی عوام کی بے بسی اور تنہائی ہے جہاں کے عوام نے دوسرے عرب ممالک کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ڈکٹیٹر حکومت خلاف علم بغاوت بلند کی۔
یاد رہے عرب ممالک میں بادشاہتوں کے خلاف لوگوں کے اُکسانے اور انقلابات لانے میں امریکہ کا بھرپورکردار اور سپورٹ حاصل تھا مگر شام میں انقلاب جب عروج کو پہنچی تو امریکہ بہادر نے بزدلی اور چشم پوشی ظاہر کی کیونکہ وہاں کی حکومت کو بچانے کے لیے روس میدان میں اُتر آیاتھا۔ایسے میں یو این او بھیگی بلی بن چکی ہے اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس وقت شام میں روزانہ قتل عام ہورہا ہے کوئی ہسپتال محفوظ ہے اور نہ کوئی سکول،شہری آبادی ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے جہاں سے لاشیں نکالنے والے بھی باقی نہیں بچے بہ الفاظ دیگر آبادی قبرستانوں میں تبدیل ہوچکی ہے ستم ظریفی یہ کہ جو ممالک بچے کچے لوگوں کو امدادی اشیا اگر پہنچانا چاہے تو وہ نہیں کرسکتے ۔تو ایسی صورتحال میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں۔
اگر اس طرح کے حالات میں یو این او اپنا کردار ادا نہیں کرسکتی تو کیا کوئی ضرورت رہتی ہے ایسے ادارے کی۔عام طور پر عالمی برادری سے مراد دنیاکے سارے ممالک لیا جاتا ہے مگر اس برادری سے مسلمانوں کو نکال کر کیا رہ جاتا ہے کیونکہ تمام مسلمان ممالک کو اندرونی سازشوں میںپھنسایا گیا ہے جس سے ان کا کردار دنیا میں باقی نہیں رہ جاتا اور اگر باقی ممالک کو دیکھا جائے تو یورپ، اسرائیل ،جاپان، روس وغیرہ رہ جاتے ہیں جو امریکی کالونیاں ہیں اورجو امریکی حکم کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ الغرض دنیا میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتی جب تک کہ اقوام متحدہ کو امریکی غلامی سے نہ نکالا جائے ورنہ کم از کم اسلامی ممالک کو یو این سے بائیکاٹ کا اعلان کردینا چاہیے۔