تہران (جیوڈیسک) اقوام متحدہ نے یمنی صدر منصور عبد ربہ ہادی کی درخواست پر 28 مئی کو یمنی بحران سے متعلق جنیوا میں ہونے والے مذاکرات ملتوی کر دیئے گئے۔
یمنی صدر منصور ہادی نے سعودی دارالحکومت ریاض میں یمن میں یو این ایلچی اسماعیل ولد الشیخ احمد سے ملاقات کی اور اس دوران جنیوا سمٹ بارے تبادلہ خیال کیا۔ منصور ہادی نے عالمی ادارے کے نمائندے کو بتایا کہ جب تک دستوری اور آئینی حکومت کا تختہ الٹنے والے باغی ہتھیار ڈالنے اور شہروں سے انخلاء سے متعلق بین الاقوامی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتے، اس وقت تک ان سے مذاکرات نہیں کئے جانے چاہیں۔
العربیہ’ کے خصوصی ذرائع نے بتایا تھا کہ یمنی صدر نے یو این سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ایک پیغام بھیجا ہے جس میں یمنی بحران سے متعلق جنیوا مذاکرات موخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یو این سیکرٹری جنرل کے نام پیغام میں صدر ہادی نے حوثیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی فورم کے پہلے فیصلے پر عمل کریں۔ عالمی ادارہ خلیج تعاون کونسل ’جی سی سی‘ کے جنرل سیکرٹریٹ کو جنیوا مذاکرات میں شرکت کی دعوت دے تاکہ یمن کی تعمیر کی کوششوں میں ہاتھ بٹایا جا سکے۔ ادھر یمنی حکومت کے ترجمان راجح بادی نے ‘العربیہ’ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ یمنی صدر نے بان کی مون کو ارسال خط میں مذاکرات میں شمولیت سے پہلے مختلف ضمانتیں دی جائیں۔ صدر ہادی کی قیادت میں یمنی حکومت نے یو این سیکرٹری جنرل کی جانب سے طلب کردہ اجلاس میں شرکت سے معذرت کی وجہ یہ بتائی تھی کہ معزول صدر علی عبداللہ صالح اور حوثی ملیشیا نے یمن میں مظالم کا سلسلہ بلا روک شروع کر رکھا ہے جبکہ دوسری جانب منصور ہادی حکومت نے یو این سمیت بین الاقوامی برادی کے ساتھ مل کر یمنی بحران حل کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
حوثی لیڈر عبدالملک الحوثی اور سابق منحرف صدر علی عبداللہ صالح سعودی عرب کی قیادت میں جاری فضائی آپریشن میں بمباری کے خوف سے کسی خفیہ مقام پر روپوش ہوچکے ہیں جبکہ باغیوں کو مزاحمتی کارروائیوں اور فضائی حملوں میں غیر معمولی جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عرب ٹی وی رپورٹ کے مطابق غالب امکان ہے وہ کہیں سنگلاخ پہاڑوں میں روپوش ہیں۔یمنی ایوان صدر کے ذرائع کے مطابق حوثی لیڈر کی سکیورٹی ایرانی جنگجو اور لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے عناصرکررہے ہیں۔
عین ممکن ہے حوثی لیڈر صعدہ گورنری کے حیدان جیسے پہاڑی علاقے میں روپوش ہوں کیونکہ یہ علاقہ افغانستان کے تورا بورا سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مران اور حیدان کے علاقوں میں ایرانی ماہرین نے حوثیوں کو ایک آپریشن کنٹرول روم بھی تیار کر کے دیا ہے جہاں سے ملک میں ہونے والی لڑائی کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ جبکہ ایرانی حکومت کی جانب سے یمن کے حوثیوں کی امداد سے انکار کے باوجود تہران کی عسکری قیادت نے حوثی باغیوں کی لاجسٹک سپورٹ، تربیتی اور عسکری امداد کا اعتراف کر لیا ہے ۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق پاسداران انقلاب کی بیرون ملک سرگرم تنظیم “فیلق القدس” ایک سینیر عہدیدار جنرل اسماعیل قائانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حوثی اس وقت یمن کی نہیں بلکہ ایران کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ان کی تربیت اسلامی جمہوریہ ایران کی نگرانی میں ہوئی ہے۔ جو بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے پرچم تلے لڑے گا ہم اس کی بھرپور مدد کریں گے۔ جن لوگوں کی تربیت ایران کی نگرانی میں ہوئی ہو دشمن انہیں کبھی شکست نہیں دے سکتے ہیں۔”خیال رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے عہدیدار کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تہران حوثی باغیوں کو سمندر اور فضائی سروس کے ذریعے امداد مہیا کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہے لیکن تہران کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔
جب سے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف “فیصلہ کن طوفان” آپریشن شروع ہوا ہے اس کے بعد ایران کی حوثی باغیوں کو امداد کی فراہمی معطل ہوچکی ہے۔پاسداران انقلاب کے عہدیدار اسماعیل قائانی نے اپنے ایک دوسرے بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک خطے کے ممالک کو فتح کررہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اب تک افغانستان، عراق، شام اور فلسطین کواپنے زیرنگیں لانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ یمن جلد ہی ایران کے مفتوحہ ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔
ایران کی سیاسی حکومت کے موقف کے برعکس فوجی عہدیداروں کی جانب سے حوثی باغیوں کی امداد کے بارے میں دعوے اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ ایرانی چیف آف اسٹاف کے معاون برائے آپریشنل امور میجر جنرل علی شادمانی نے بھی اپریل میں اعتراف کیا تھا کہ ان کا ملک یمن کے حوثی باغیوں کو جنگی امورمیں صلاح مشورے اور ان کی رہ نمائی کررہا ہے۔