واشنگٹن (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے مولانا مسعود اظہر پر پابندی کی درخواست ناکام ہونے پر نئی دلی کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ بھارت نے چین کا نام لیے بغیراس پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور اسے حیران کن قرار دیا ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ کا واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے تحفظ پر ہونے والی کانفرنس کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جیش محمد کو شدت پسند سرگرمیوں اور القاعدہ سے تعلقات کی وجہ سے سنہ 2001 میں ہی بلیک لسٹ شدت پسند تظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا لیکن اس کے رہنما پر پابندی لگانے کی تجویز پر تکنیکی اعتراض لگا دیا گیا ہے۔
وکاس سوروپ کا کہنا تھا کہ بھارت اس بات سے مایوس ہے کہ مسعود اظہر پر پابندی لگانے کی ہماری درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے تکنیکی پابندی لگا دی ہے جب کہ پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے سے یہ واضح ہے کہ مسعود اظہر پر پابندی نہیں لگانے کا نتیجہ بھارت کو بھگتنا پڑ رہا ہے جب کہ کمیٹی کا یہ عمل بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے انتہا پسندی کو فیصلہ کن شکست دینے کے عزم کے مطابق نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین نے اقوام متحدہ میں طالبان اور القاعدہ پر پابندی لگانے والی کمیٹی کی ڈیڈ لائن سے قبل اس کی مخالفت کردی تھی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اس پر تکنیکی پابندی لگادی جب کہ دوسری جانب اقوام متحدہ میں چین کے سفیر لیو جیئی نے اس بارے میں صرف اتنا کہا کہ کسی پر بھی پابندی لگانے کے لیے ٹھوس بنیاد کا ہونا ضروری ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بیجنگ، دہلی اور نیویارک میں موجود بھارت کی وزارت خارجہ کے اہلکاروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رواں سال دو جنوری کو پٹھان کوٹ پر ہونے والے حملے کے بعد سے بھارت اقوام متحدہ کے چین سمیت تمام مستقل رکن ممالک سے مولانا محمد مسعود اظہر پر پابندی کے لیے رابطے میں تھا۔
یاد رہے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد پاکستان کی حکومت نے کالعدم تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو تفتیش کے لیے حفاظتی تحویل میں لیا تھا جب کہ جیشِ محمد کے دفاتر کو سیل کیا گیا اور بہت سے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔