تحریر : سید توقیر زیدی وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھا ہے، جس میں اْن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر کے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کرائے اور کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے، وزیراعظم نے دوسرا خط اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو لکھا ہے، جس میں اْن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کشمیریوں پر مظالم ناقابلِ قبول ہیں، پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیریوں پر فائرنگ کر کے اْنہیں بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے۔
یہ صورتِ حال کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے مطالبے کو دبانے کے لئے ظلم و وحشت کی مظہر ہے، زخمی مریضوں کو ہسپتالوں تک رسائی سے روکا جا رہا ہے، اپنے خط میں نواز شریف نے برہان مظفر وانی کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر کشمیر قدیم ترین مسئلہ ہے، اس کے بعد بہت سے مسائل عالمی ادارے کے سامنے آئے اور حل ہو گئے، مشرقی تیمور ابھی کل کی بات ہے اقوام متحدہ کی مداخلت سے یہ آزاد خود مختار مْلک بن گیا، سوڈان کے دو حصے کر دیئے گئے، کویت کے بارے میں قراردادوں پر پوری شدت سے عملدرآمد کر دیا گیا اور قوت کے ذریعے اِس پر عراق کا قبضہ ختم کرا دیا گیا۔ اِسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جن میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اِن کی روح کے مطابق عمل کر دیا گیا،لیکن کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ نے جو قراردادیں منظور کیں اْن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازعہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا۔ اس وقت جو خطہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ اس پر قبائلی مجاہدین نے بزورِ قوت قبضہ کیا تھا اور بھارتی افواج کو یہ علاقہ خالی کر کے نہ صرف پسپا ہونا پڑا، بلکہ قبائلی مجاہدین پوری قوت کے ساتھ پیش قدمی کر رہے تھے۔ پاکستانی افواج بھی شریک جنگ تھیں اور سری نگر تک اْن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی فوج کی پسپائی دیکھی تو وہ خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گئے اور وہاں پوری دْنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے گا، چنانچہ پاکستان نے جنگ بندی قبول کر لی، جس مقام پر دونوں ملکوں کی فوجوں کا کنٹرول تھا وہ ”سیز فائر لائن” کہلاتی تھی اس کے ایک طرف مقبوضہ کشمیر ہے،جو بھارت کے کنٹرول میں ہے، دوسری جانب آزاد کشمیر ہے، جہاں کشمیریوں کی منتخب حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔
Kashmir Issue
بھارت نے جنگ بندی کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تو وہ حقِ خود ارادیت کے وعدے سے بتدریج رو گردانی کرنے لگا، پھر اْس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا اور اعلانِ تاشقند اور شملہ معاہدے میں اسے باہمی تنازعہ قرار دے دیا گیا، جس کا حل فریقین کو باہمی مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنا تھا۔”سیز فائر لائن” کو بعد میں کنٹرول لائن کہا جانے لگا۔ اِس کے بعد اِس مسئلے کے حل کے لئے جو بھی مذاکرات ہوئے بے نتیجہ رہے ، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ یہ محض وقت گزاری کا بہانہ تھے۔
اِس دوران کشمیری اپنے طور پر جدوجہد کرتے رہے۔ اب بھی وہ اپنے حقِ خود ارادیت کے حصول کے لئے بھارتی فوجوں کے بالمقابل کھڑے ہیں ، اِس وقت نوجوان کشمیریوں کی جدوجہد کا ہر اول دستہ ہیں اور بھارت کے انصاف پسند حلقے یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ کشمیریوں کی یہ جدوجہد مکمل طور پر اْن کے اپنے ہاتھ میں ہے، جو لوگ شہید ہو رہے ہیں اْن کی عمریں زیادہ سے زیادہ پچیس چھبیس سال ہیں،زخمیوں میں تو دس دس سال کے بچے شامل ہیں اس کے باوجود نتائج بھارتی حکومت کی پسند کے مطابق نہیں نکلے، بھارت کا خیال تھا کہ اِس ظلم و ستم سے تنگ آ کر کشمیری حقِ خود ارادیت کی اس جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں گے، لیکن یہ خیالِ خام ثابت ہوا، طویل کرفیو کے باوجود کشمیریوں کے جذبے جوان ہیں اور انہوں نے بھارتی فوجیوں کے مْنہ موڑ دیئے ہیں۔
کشمیر کے حالات اِس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی ادارہ یہاں اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور کشمیریوں کو نہ صرف ظلم و ستم سے بچائے، بلکہ اْن کے حقِ خود ارادیت کی راہ بھی اْسی طرح ہموار کرے، جس طرح اس نے دوسرے علاقوں اور ملکوں میں کی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا یہ بہترین وقت ہے، لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل وقتاً فوقتاً ثالثی کی پیشکش کر کے رہ جاتے ہیں، جسے بھارت یہ کہہ کر مسترد کر دیتا ہے کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے، جس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی ضرورت نہیں، لیکن دو طرفہ مذاکرات آج تک وقت کا ضیاع ثابت ہوئے ہیں اور اس وقت تو کوئی مذاکرات بھی نہیں ہو رہے، نہ مستقبل قریب میں ہونے کا فی الحال کوئی امکان نظر آتا ہے۔
India
اِن حالات میں اقوام متحدہ کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنی چاہئیں اور آگے بڑھ کر قراردادوں پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا چاہئے۔جہاں تک پاک بھارت مذاکرات کا تعلق ہے یہ جب بھی ہوتے ہیں بھارت مکاری کے ساتھ کشمیر کے معاملے کو ان سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کبھی صورتِ حال ایسی بن جائے کہ کشمیر مذاکرات کے ایجنڈے میں در آئے تو حیلے بہانے سے یا تو انہیں طول دینا شروع کر دیتا ہے یا پھر مذاکرات کو ہی معرضِ التوا میں ڈال دیتا ہے، لیکن اب کشمیر کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اب بھارت کے لئے وقت گزاری کا رویہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔
اب مسئلہ کشمیر کو غیر معینہ مدت کے لئے لٹکایا نہیں جا سکتا اس کا حل تلاش کرنا ہو گا، کیونکہ اِس مسئلے کی وجہ سے خطے کا امن ہر وقت داؤ پر لگا رہتا ہے، دونوں مْلک ایٹمی قوتیں ہیں اِس لئے اگر کشمیر کے معاملے پر تعلقات زیادہ سنگین صورت اختیار کرتے ہیں تو دونوں ملکوں میں تصادم کا خطرہ رہتا ہے یہ تصادم بڑھتے بڑھتے ایسے مقام تک جا سکتا ہے جہاں خطے کا امن بھسم ہو سکتا ہے، اِس لئے اقوام متحدہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرائے تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکے، اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر دونوں ملکوں ہی کا نہیں پورے خطے کا امن ہی برباد ہو گا۔ اقوام متحدہ کی بنیادی ذمے داری ہی قیام امن ہے اِس لئے کسی ممکنہ تصادم سے پہلے اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کا اہتمام کرنا چاہئے۔