کابل (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں بات چیت کے ذریعے نئی حکومت کی تشکیل اور جنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے پر زوردیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے انسانی حقوق کی پامالی اورخواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں پر خبردار کیا ہے۔
15 رکن ممالک پر مشتمل کونسل نے سوموار کو اپنے اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے۔اس میں انتونیو گوٹیرس کی ادارے سے اپیل پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ’’وہ افغانستان سے دہشت گردی کے عالمی خطرے کو دبانے اور انسانی حقوق کے احترام کی ضمانت کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے۔‘‘
گوٹیرس نے کہا کہ ’’ہم افغانستان کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑسکتے اور نہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔‘‘طالبان اتوار کو دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے تھے اورصدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں۔طالبان سے امریکا اوردوسرے ممالک کی افواج سے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران میں جنگ لڑی ہے اور اب ان افواج کی جنگ زدہ ملک سے انخلا کے بعد طالبان کی کابل میں واپسی ہوئی ہے۔
سلامتی کونسل نے افغانستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ دوسرے ممالک کو اس کی سرزمین سے دھمکیاں دی جائیں اور نہ ان پرحملے کیے جائیں۔بیان میں کہا گیا کہ طالبان یا کسی دوسرے افغان گروپ یا فرد کو کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
کونسل نے جامع مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں تمام مخاصمتوں کوختم کرنے کا مطالبہ کیا اورمذاکرات کے ذریعے ہی نئی مشمولہ حکومت کی ضرورت پرزوردیا ہے جس میں خواتین بھی شامل ہوں۔
یاد رہے کہ افغان طالبان نے11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکاردیا تھا۔اس کے ردعمل میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فوجوں نے افغانستان پر چڑھائی کردی تھی اور 2001ء کے آخر میں طالبان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا تھا۔اس کے بعد انھوں نےامریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کردی تھی۔
اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین نے گذشتہ ماہ سلامتی کونسل کو اطلاع دی تھی کہ القاعدہ کے ارکان کم سے کم 15 افغان صوبوں میں موجود ہیں۔ وہ بنیادی طورپرافغان اور پاکستانی شہری ہیں۔ان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت اور میانمار سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی القاعدہ کی صفوں میں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ میں چین کے نائب سفیر گینگ شوانگ نے سلامتی کونسل میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ ’’افغانستان کو پھرکبھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننا چاہیے۔یہ بات سب سے اہم ہے اورہمیں امید ہے کہ طالبان… دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنا ناتا مکمل طور پر توڑ لیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ میں روسی سفیرویسیلی نیبنزیا کا کہنا تھا کہ’’طالبان کے مقابلے میں افغان سرکاری افواج کی اتنی تیزی سے شکست نے سب کوحیران کر دیا ہے۔فی الحال گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ عام شہریوں کو وسیع پیمانے پر خون ریزی سے بچا لیا گیا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ہم تمام افغان جماعتوں پرزوردیتے ہیں کہ وہ باہم دشمنی سے باز رہیں اور پرامن طریقے سے تصفیے کو فروغ دیں۔
طالبان نے قبل ازیں 1996ء سے 2001 ءتک افغانستان پر حکومت کی تھی۔انھوں نے اپنے دور میں خواتین کو گھروں سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دی، لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عاید کردی تھی اوراگرخواتین اپنے گھروں سے باہر نکلنا چاہتی تھیں تو انھیں اپنا چہرہ سرپوش سے ڈھانپنا پڑتا تھا اور ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار بھی ہوتا تھا۔
اب طالبان کے افغانستان میں دوبارہ کنٹرول کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوٹیریس نے کہا کہ ’’ہمیں افغانستان بھر سے انسانی حقوق پر سخت قدغنوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔مجھے خاص طور پرافغان کی خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں سے متعلق بیانات سے تشویش لاحق ہے۔‘‘
طالبان حکام نے اپنے حالیہ بیانات میں یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ پرامن بین الاقوامی تعلقات چاہتے ہیں اور خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں آئرلینڈ کے سفیر جیرالڈین بائرن نیسن نے کونسل کو بتایا کہ ’’طالبان نے مبیّنہ طور پر کہا ہے کہ خواتین کو ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا عالمی برادری کو یہ بتانا کہ وہ کیا سننا چاہتی ہے،کسی کو بے وقوف نہیں بناسکے گا۔ ہم حق سے آنکھیں نہیں موندیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے افغان شہریوں پرحملوں کو روکنے اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے احترام کی ضرورت پر زور دیا۔
اقوام متحدہ میں افغان سفیر غلام اسحاق زئی نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ کسی ایسی انتظامیہ کو تسلیم نہ کرے جو طاقت کے ذریعے اقتدار میں آئی ہو یا کوئی ایسی حکومت جو مشمولہ اور تمام طبقات کی نمایندہ نہ ہو۔