نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں خانہ جنگی کے خاتمے اور قیام امن کا حل تلاش کرنے کے لیے متفقہ قرارداد کی توثیق کردی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مستقل ارکان کے علاوہ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں عالمی رہنما شام میں قیام امن کے لیے ایک قرارداد پر متفق ہو گئے۔ جس کے تحت آئندہ ماہ سے شامی حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا، جس کا ابتدائی مقصد فریقین کے درمیان جنگ بندی ہوگا۔ دوسری جانب قرارداد میں شام کے صدر بشار الاسد کے مستقبل کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
قرارداد کے تحت داعش اور القاعدہ کی ذیلی تنظیم النصرہ فرنٹ جیسے گروہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔ اس طرح روس، فرانس اور امریکا بھی شام میں داعش کو نشانہ بنا سکیں گے۔ جنگ بندی پر نظر رکھنے کے لئے لائحہ عمل سے متعلق رپورٹ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون فراہم کریں گے۔
جنگ بندی کے بعد چھ ماہ کے اندر شام میں قابلِ اعتماد اور غیر فرقہ وارانہ حکومت قائم کی جائےگی۔ 18 ماہ کے اندر اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں آزاد اور شفاف انتخابات کروائے جائیں گے جس میں شام کے عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے قرارداد کی منظوری کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ صدر بشار الاسد شام کو متحد رکھنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں تاہم ان سے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ جنگ کو طویل کررہا ہے۔ اس لئے مغرب اور عرب اقوام اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ شامی صدر کو انتقالِ اقتدار کے عمل کے خاتمے تک موجود رہنا چاہیے۔
دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ شامی عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس قرارداد کا بنیادی مقصد داعش کو شکست دینا اور شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام ہے اور امید ہے کہ آئندہ 6 ماہ میں شام میں اتحادی حکومت پر معاہدہ طے پا جائےگا۔