تحریر : علی عمران شاہین دوسری جنگ عظیم جس میں لگ بھگ سوا چھ کروڑ انسان لقمہ اجل بنے تھے، اس جنگ کے اختتام پر عالمی طاقتوں نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، جسے اقوام متحدہ کا نام دیا گیا۔ یہ ادارہ 24 اکتوبر 1945ء کو باقاعدہ طور پر معرض وجود میں آیا۔ اس کے ابتدائی اراکین کی تعداد 51 تھی جو اس وقت 193 ہے۔ اس زمانے میں ہی تنظیم کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں بنا، جو اس وقت تک وہیں قائم ہے۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ یہ دنیا میں امن کیلئے کام کرے گا اور پہلی جنگ یا دوسری جنگ عظیم جیسے سانحات ہونے سے روکے گی۔ دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہوئی کہ اس ادارے نے 1947ء میں فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل نام کے ایک ملک کے قیام کی منظوری دے دی جو سراسر قابض اور ناجائز ریاست تھی۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی اس ادارے نے اپنے فعال ہوتے ہی سب سے پہلا وار مسلم امہ کے دل پر کیا۔
اسرائیل کی ریاست عالمی استعماری طاقتوں کی سازش کا نتیجہ تھی، مقصد یہ تھا کہ مسلم دنیا کے عین وسط میں ایک ایسا خنجر گھونپ دیا جائے جو انہیں کبھی چین نہ لینے دے (حیران کن طور پر آج بھی اسرائیل کا نقشہ ایک خنجر کی شکل میں ہی ہے)اس اسرائیل نے ساری عرب دنیا اور افریقی مسلم دنیا کو جس قدر اذیت سے دوچار کر رکھا ہے، وہ سارے عالم کے سامنے ہے، لیکن چونکہ اس ریاست کو دنیا میں مسلم دشمن طاقتوں کی کھلی حمایت، مدد اور تعاون حاصل ہے، لہٰذا وہ کچھ بھی کرے، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو ہوا کہ اس جنگ جیسا کوئی جنگی سانحہ پیش نہ آیا لیکن دوسری طرف ساری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام تیز تر ہو گیا۔ اس قتل عام کا سلسلہ پھیلتے پھیلتے کرئہ ارض کے ہر کونے تک پہنچ گیا لیکن اس پر اقوام متحدہ نے اول دن سے یوں چپ سادھے رکھی، جیسے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ظاہر ہے جس ادارے نے اپنے قیام کے ساتھ اسرائیل جیسے ملک کو باقاعدہ طور پر ایک قانونی ریاست کی حیثیت دے دی، وہ بھلا مسلمانوں کے لئے کسی اچھائی کا کیسے سوچ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اس اقوام متحدہ نے ایک انتہائی حیران کن لیکن انتہائی مذموم اقدام کرتے ہوئے 14 ملکی اسی سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ قرار دے دیا ہے، جو اس وقت یمن کی آئینی و قانونی حکومت کی درخواست پر کارروائی کر کے اس کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہے۔سعودی عرب کو اس سلسلے میں بظاہر عالمی طاقتوں بشمول امریکہ و برطانیہ تک کی حمایت حاصل تھی لیکن وہ اندر سے سعودی عرب ہی نہیں، سارے عالم اسلام کے چونکہ سب سے بڑے دشمن ہیں لہٰذا انہوں نے اپنی خفیہ اسلام دشمن پالیسی آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکہ نے تو گزشتہ دنوں سعودی عرب کو کلسٹر بموں کی فروخت تک بند کر دی ہے۔ اقوام متحدہ نے سعودی اتحاد کو بلیک لسٹ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی کہ ایک سالہ سعودی کارروائی کے دوران یمن میں ان کے حملوں اور بموں سے ساڑھے سات سو کے لگ بھگ بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں جو غیرقانونی عمل ہے۔ ایک اور کمال حیرت کا عمل دیکھئے کہ اقوام متحدہ کی اس مذموم حرکت پر سعودی عرب کے ان مغربی ”اتحادی” کسی ملک نے معمولی جنبش بھی نہیں کی اور وہ کرتے بھی کیوں؟ ابھی چند ہی مہینے پہلے تو یورپی یونین سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت روکنے کی قرارداد پاس کر چکی ہے جسے اب دوبارہ دہرایا گیا ہے۔
Selling Weapons
اس اقوام متحدہ کو یمن میں مبینہ طور پر ”بچوں کے قتل” کی تو خبر پہنچ گئی لیکن اسے آج تک امریکہ کے ہاتھوں افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ، یمن اور دیگر خطوں میں مرنے والے لاکھوں معصوم بچے نظر نہیں آ رہے کہ جن کو سالہا سال سے پیوند خاک کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے ڈرون حملوں میں 4ہزار کے لگ بھگ بے گناہ لوگ شہید ہوئے جن میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور عورتیں شامل تھیں لیکن اس کی کبھی پروا تک نہیں کی گئی۔ چلئے تھوڑی دیر کیلئے مان لیا کہ افغانستان اور عراق میں تباہی مچانے اور لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے سے پہلے امریکہ نے اقوام متحدہ سے اجازت لی تھی لیکن پاکستان اور دنیا کے دیگر خطوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو بے شمار بے گناہ قتل کئے ہیں، ان کا حساب کیوں نہیں لیا جاتا؟ عراق میں اتنے بڑے قتل عام کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے محض ”سودی” کہہ دیا تو بات آ ئی گئی ہو گئی اور اقوام متحدہ کو اس طرف دیکھنے کی توفیق نہیں۔ امریکہ کو تو چھوڑیے کہ وہ تو خود کو سارے عالم کا ”مالک و مختار” سمجھتا ہے۔
روس بغیر کسی اقوام متحدہ کی اجازت کے کتنے عرصہ سے شام میں محض اپنی دھونس، دھاندلی سے روزانہ قتل عام کر رہا ہے۔ روس کی بمباری سے کتنے ہسپتال، کتنی مساجد اور کتنے سکول تباہ ہوئے، سینکڑوں نہیں، ہزاروں معصوم بچے بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے، ملبہ کے ڈھیروں میں ریزہ ریزہ ہوئے اور اب بھی یہ سب ہو رہا ہے لیکن اس کی جانب کسی اقوام متحدہ، یورپی یونین یا انسانی حقوق کے ادارے کی نگاہ نہیں اٹھی۔ ایران اور حزب اللہ آخر کس کی اجازت سے شام میں باقاعدہ اپنی فوجیں بھیج کر مصروف جنگ ہیں؟ انہیں بلیک لسٹ قرار دے کر پابندیوں کی بات کیوں نہیں ہوتی؟ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو تو فوری آزاد ریاست تسلیم کر کے مسلمانوں کو طویل اور سخت عذاب میں مبتلا کیا لیکن کشمیر سے فلسطین اور برما سے افریقہ تک مسلمانوں کے کسی مسئلہ کو یہ ادارہ حل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس سعودی اتحاد کو اقوام متحدہ اب بلیک لسٹ قرار دے چکی ہے، اس نے اس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے یمن میں آپریشن کی باقاعدہ قرارداد پاس کروا کر اجازت بھی لی تھی۔ اس صورتحال پر تو تنگ آ کر مسلم دنیا کے ایک عظیم رہبر اور مسیحا کے طور پر سامنے آنے والے ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ دنوں کہا کہ دنیا میں ایک ارب ستر کروڑ آبادی رکھنے والی مسلم دنیا کی اقوام متحدہ میں کوئی جگہ یا حیثیت نہیں ہے۔
European Union
انہوں نے کہا سلامتی کونسل کے 5ارکان ممالک ہیں اور ساری دنیا کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی معاملہ یا مسئلہ پر مخالفت کر دے تو وہ قضیہ وہیں رک جاتا ہے۔ یہ فیصلہ غلامی اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ انہوں نے یہ بیان اپنے دورئہ یوگنڈا کے موقع پر دیا جبکہ اسی طرح کے خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بھی کر چکے ہیں۔ ترکی اس وقت مسلم دنیا کی رہبری میں پیش پیش ہے لیکن اقوام متحدہ ہی کے مستقل رکن ممالک اس ترکی کے بھی درپے ہیں۔ روس اس ترکی کے خلاف باقاعدہ آمادئہ جنگ ہے۔ وہ اپنے تئیں ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ یورپی یونین کے ملک جرمنی نے ترکی کی خلافت عثمانیہ کے دور کی ایک جنگ کو قتل عام قرار دے دیا ہے جس پر ترکی نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی سے اپنا سفیر تک واپس بلا لیا ہے۔
یہ اقوام متحدہ مسلم دشمنی میں اس حد تک آگے جا چکی ہے کہ صدیوں پرانی تاریخ کرید کر اور جھوٹی کہانیاں گھڑ کر بھی مسلم امہ کا پیچھا کر رہی ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا ہے کہ اب بھی اقوام متحدہ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ دنیا کے مسلم ممالک ابھی تک اقوام متحدہ اور اس کے پالے ہوئے بھیڑیا نما ممالک کا شکار نہیں ہوئے وہ ”ہنوز دلی دور است” کے نشے میں مست پڑے ہوئے ہیں۔ عراق پر حملے میں پہلے کولن پاول نے اقوام متحدہ میں بیٹھ کر فراڈ تقریر کی تھی اور جھوٹی کہانیاں سنائی تھیں، زمانہ ہوا وہ سب جھوٹ سب کے سامنے بھی آ چکا لیکن امریکہ اور اتحادیوں کے ہاتھوں مرنے والے مسلمان تھے، لہٰذا کسی نے اب تک کوئی فکر نہیں کی کہ عراق کا تو سارا ملک ہی کھنڈر بن چکا ہے۔ یہ حالات انتہائی نازک ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہنے کی روش ترک کر کے ہمیں کچھ عملی اقدامات اٹھا کر آگے بڑھنا ہو گا۔ سعودی عرب نے 39 مسلم عسکری اتحاد کی بنیاد رکھی ہے۔
اس پر اربوں ڈالر کے اخراجات کئے ہیں۔ مسلم دنیا کو ایسے اتحاد بنانا ہوں گے۔ اپنے دفاع کے لئے مشترکہ پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا۔ اقوام متحدہ کے چکر اور فراڈ سے نکلنا ہو گا۔ پاکستان کو بھی اس کئے عمل پر ان کی طرف آنا ہو گا کیونکہ یہ اقوام متحدہ پاکستان کے خلاف بھی بہت کچھ کر چکی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کے خلاف کتنی قراردادیں منظور ہونے سے صرف اس لئے رک گئیں کہ چین نے انہیں ویٹو کر دیا، وگرنہ ہم بھارت کی کوشش سے دہشت گرد ریاست تک قرار دیئے جا چکے ہوتے۔ ہمیں ان حالات کا ادراک کر کے آگے بڑھنا ہو گا اور اپنے مسائل خود حل کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ہو گی۔