اس وقت امریکہ دنیا کے لیے دہشت کا ایک نشان بنا ہوا ہے اور خاص کر اْس کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی تو اس کے ہر ہر فعل سے عیاں ہو رہی ہے جہاں کہیں کسی ملک میں اْسے معمولی سا بہانہ ملا اْس نے خلق خدا میں فساد برپا کرنا اپنا فرض جانا۔ کہنے کو تو اوبامہ مسلم دوستی کا نعرہ لگاتا ہے اور اتحاد بین المذاہب کی بات بھی کرتا ہے لیکن عملا ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔
دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکہ صرف مسلمان ممالک میں ہی متحرک نظر آتا ہے اور جتنا بظاہر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بباطن اتنا ہی اسے پھیلایا جاتا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جس جس ملک میں وہ جاتا ہے وہاں دہشت گردی کو اتنا ہی زیادہ فروغ ملتا ہے اور نہ صرف وہ ملک بلکہ پورا علاقہ دہشت گردی کی زد میں آجاتا ہے جسکی سب سے بڑی مثال افغانستان میں اْس کی موجودگی اور پورے خطے خاص کر پاکستان میں بد امنی اور دہشت گردی کا راج ہے اور جب تک وہ یہاں موجود ہے کسی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
کہنے کو تو امریکہ 2014 میں افغانستان سے نکلنے کی بات کر رہا ہے لیکن فی الحال اس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ امریکہ خود کو دنیا کے امن کا ضامن سمجھتا ہے لیکن ابھی تک اْس کے کریڈٹ پر ایسا کوئی ایسا کا رنامہ نہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے مغربی سرحدی علاقے اسکے خیال میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کی جائے پناہ ہیں جن پر وہ دس سال سے اپنے ہر طرح کے وسائل اور دماغی صلاحیتیں خرچ کر چکا ہے لیکن دہشت گردی میں کمی کی بجائے ہر روز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
Afghanistan
افغانستان جو کبھی پوست کی کاشت کا گڑھ تھا لیکن طالبان کے زمانے میں پوست سے پاک ملک بن گیا تھا آج ایک بار پھر پوست اور افیون کا گھر بن چکا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں جرائم میں 39% اور پوست کی کاشت میں 18% اضافہ اسکے دعوئوں کی قلعی کھولنے کو کافی ہے۔ جرائم پیشہ افراد نہ صرف افغانستان میں کھل کھیل رہے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی سمگل ہو رہے ہیں افغان حکومت باوجود مکمل امریکی حمایت اور مدد کے ان سارے مصائب و مسائل کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔
اس کو اپنے عوام کی نفرت اور غصے کو بھی برداشت کرنا پڑرہا ہے اور کسی بھی قسم کی کامیابی بھی اْسے نہیں مل رہی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ افغانستان میں افغانوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے بیٹھا ہوا ہے۔
اْسے یہاں بیٹھ کر نہ صرف وسطی ایشیاء کے توانائی کے خزانوں پر نظر رکھنی ہے بلکہ اس طرح وہ روس اور چین کی عسکری طاقت و قوت کا بھی بہتر اندازہ رکھ سکے گا۔ 2014 میں امریکہ نے بظاہر تو افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا ہے لیکن اب اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ افغانستان کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جائے گا جیسے روس چھوڑ کر گیا تھا اور اس کے دیکھا دیکھی برطانیہ اور باقی نیٹو ممالک بھی اپنی کچھ نہ کچھ افواج افغانستان میں رکھیں گے۔
یعنی اْس نے خطے میں رہنے کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کیے رکھنا ہے اسی فوجی انخلاء کے سلسلے میں مارچ میں امریکہ اور افغانستان میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں اس یا داشت پر دستخط کئے گئے کہ امریکہ بگرام ائیر بیس پر موجود قیدیوں اور اس بدنام زمانہ قید خانے کو افغان حکومت کے حوالے کر دے گا۔ یاد رہے کہ اس جیل میں بہت سے ایسے قیدی بھی موجود ہیں جن پر اب تک نہ تو امریکہ نہ افغان حکومت کوئی الزام ثابت کر سکی ہے۔ معاہدہ تو ہو گیا تھا کہ چھ ماہ میں یہ کام مکمل کر لیا جائے گا لیکن اب بقول افغان صدر حامد کرزئی امریکہ اس میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے اور ابھی تک اْس نے اس پر عمل نہیں کیا ہے۔
اگر چہ حامد کرزئی کو وقتا فوقتا امریکہ سے شکایت ہوتی رہی ہے اور وہ کبھی دبی آواز میں اور کبھی اپنے اندر کے افغان کو جگا کر بول لیتے ہیں تاہم پھر کسی مغلوب قوم کے سربراہ کی طرح امریکی مفادات کا تحفظ کرنے لگتے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنے ملک کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کرتے جب کہ انہوں نے کئی کئی موقعوں پر امریکیوں کو آزما لیا ہے بلکہ ایک بار تو انہوں نے یہ تک کہا کہ شروع میں وہ ان غیر ملکیوں کے انکے ملک میں ایک ایک لمحے کی موجودگی کے لیے مشکور تھے لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یہاں آئے ہیں انہیں افغانوں سے کوئی دلچسپی نہیں، برہم تو وہ اْس وقت بھی ہوئے جب امریکی جہازوں نے افغان سول آبادی پر بمباری کی، اور اْس وقت بھی جب ان کے ملک میں اور ان کی حکومت میں نعوذبا للہ قرآن شریف جلا یا گیا۔
اْس وقت بھی ناگواری کا اظہار کیا جب امریکی سپاہیوں نے” مسلمان” طالبان کی لاشوں پر پیشاب کرنے جیسا غیر انسانی فعل کیا لیکن پھر بھی امریکہ اْن کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر کرزئی اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کر لیتے ،اپنی توانائیاں اْسی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے گریز کرتے جس نے سالہا سال اپنی معیشت کو زیربار رکھ کر اْنہیں اور ان کے ہموطنوں کو دشمن کے مقابلے میں پناہ دی اگر وہ یہی توانائی اپنے حقیقی دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے تو شاید اب تک افغانستان کو آزاد کر چکے ہوتے لیکن دکھ اسی بات کا تو ہے کہ مسلمان نے ہمیشہ مسلمان سے ہی شکست کھائی ہے۔
کسی اور قوم سے نہیں اگر میر جعفر و صادق نہ ہوتے تو سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان انگریز کی پہنچ سے بہت دور ہوتے۔ حامد کرزئی اگر اب بھی تاریخ سے سبق حاصل کرلیں، اپنے اوپر قابض قوم کے اعمال پر غور کریں اور اپنے مربیوں کی نیتوں کا ادراک کریں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے بلکہ یہ تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے درپہ آزار ہیں تو شاید کوئی ایسا کار نامہ سرانجام دے سکیں کہ اْن کی قوم ان کے پچھلے گناہ معاف کردے ورنہ شاید اب تو لوگ بگرام ائیر بیس کی پروان جیل کے خوف سے خاموش رہیں لیکن آنے والی افغان نسلیں انہیں نحیب اللہ اور ببرک کارمل سے بھی زیادہ سخت الفاظ اور سلوک کا مستحق سمجھیں گی۔