وسکونسن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی ریاست وسکونسن میں پولیس نے ایک سیاہ فام شخص پر گولی چلائی جس کے خلاف زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے، شہر میں کرفیو کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر نکل کر اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
امریکی ریاست وسکونسن کے شہر کینوشا میں سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے اور کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاہ فام جیکب بلیک پر پولیس کی فائرنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ 29 سالہ جیکب بلیک پر پولیس نے پیچھے سے سات بار گولی ماری تاہم وقت پر اسپتال پہنچنے کے سبب وہ ابھی زندہ ہیں اور اسپتال میں زندگی و موت سے نبرد آزما ہیں۔ اس واقعہ کے خلاف دو روز سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ پیر کو حکام نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا تھا تاہم اس کے باوجود بڑی تعداد میں مظاہرین باہر نکلے اور احتجاج کے دوران بعض نے سکیورسٹی فورسز پر پانی کی بوتلیں پھینکیں تو بعض نے غصے میں ان پر کچھ دوسری چیزیں اچھالیں۔
مظاہروں میں شامل افراد نعرے لگا رہے تھے کہ ”اگر انصاف نہیں ہے تو امن بھی نہیں ہوگا” اور جیکب بلیک کا نام بھی زور زور سے لیا جا رہا تھا۔ پیر کے روز اس واقعے کے خلاف نیویارک شہر میں بھی مظاہرین نے مارچ کیا۔ نیو یارک کے مظاہرے میں شامل ایک شخص اوّل نے کہا، ”میں غصے میں ہوں، میرا موڈ خراب ہے، اور میں تھک گیا ہوں۔ میں حقیقت میں تھک چکا ہوں۔ میں نے اس کے لیے شہر میں 27 میل کا مارچ کیا اور تھک ہار چکا ہوں۔”
جیکب بلیک پر فائرنگ سے متعلق ایک ویڈیو وائرل ہوچکی ہے جس میں انہیں اپنی کار کی ڈرائیونگ سائڈ کی طرف چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے دو پولیس اہلکار بھی اپنی بندوقیں تانے ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ جیکب جیسے ہی اپنی کار کے اندر داخل ہوتے ہیں ایک پولیس اہلکار ان کی شرٹ پکڑ کر کھنچتا ہے اوران پر فائر کرنا شروع کردیتا ہے۔ ویڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار نے ان پر سات بار فائر کیا۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آخر ایسا ہوا کیا تھا کہ پولیس نے اتنی زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔ یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ ایک ہی پولیس اہلکار نے ساتھ بار گولی چلائی یا پھر دونوں نے فائرنگ کی۔ حکام نے دونوں پولیس افسروں کو انتظامی چھٹی پر بھیج دیا ہے۔
جیکب بلیک کے ساتھ جب فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا تو اس دوران ان کے بچے بھی ان کے پاس موجود تھے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا علاج چل رہا ہے۔ ان کے والد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ فی الوقت ان کی حالت مستحکم ہے اور صورت حال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بیٹے کی جان بچ جائیگی۔ `اس واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ہی ریاست کے مختلف علاقوں میں پولیس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے جن کا سلسلہ رات بھر جاری ہے، حکام نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر کرفیو کا اعلان کیا تاہم احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔
پولیس کے اس بہیمانہ رویے پر امریکا بھر میں، خاص طور پر، وسکونسن میں سخت رد عمل ظاہر کیا گیا اور انتخابی ماحول میں ڈیموکرٹیک اور ریپبلکنز کے درمیان اس پر سیاست بھی شروع ہوگئی۔ وسکونسن کے ڈیموکریٹک گورنر ٹونی ایورز نے سیا ہ فام امریکیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جیکب بلیک کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا، ”ابھی تک ہمارے پاس اس کی تمام تفصیلات تو نہیں ہیں، تاہم جو بات ہم یقینی طور پر جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ پہلے سیاہ فام آدمی یا شخص نہیں ہیں جن کو ہماری ریاست یا ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے افراد کے ہاتھوں گولی مار کر زخمی کیا گیا ہو یا پھر بے رحمی سے ہلاک کیا گیا ہو۔”
لیکن ریپبلکنز کو گورنر ایورز کا یہ بیان پسند نہیں آیا اور انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے بغیر تفصیلات جانے ہی اس کا نتیجہ اخذ کر لیا۔ ریاست میں ریپبلکن رہنما سین وین وینگرڈ، جو سابق ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں، نے کہا، ”ہر شخص کو اس وقت تحمل سے کام لینا چاہیے۔ ہمارے اگلے اقدامات کی رہنمائی قانون اور عقل کو کرنی ہے، جذبات کو نہیں۔اچھے رہنما حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کشیدگی کو بڑھا وا نہیں دیتے۔ ایورز کا بیان غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔”
کینوشا شہر کی پولیس یونین کے صدر نے بھی گورنر کے بیان پر نکتہ چینی کی ہے تاہم گورنر ٹونی ایورز نے ریاستی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے پولیس میں اصلاحات کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ ریاستی اسمبلی میں اکثریت ریپبلکنز کی ہے اور یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ ٹونی ایورز نے ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد جون میں محکمہ پولیس میں اصلاحات کے لیے ایک مسودہ تیار کیا تھا اور اسی کی منظوری کے لیے انہوں نے 31 اگست سے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔ تاہم اس پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔