امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں اس برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سابق نائب صدر جو بائیڈن کو باضابطہ طور پر اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ہوں گے۔
امریکا میں حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کا چار روزہ کنونشن پیر 17 اگست کو شروع ہوا تھا اور منگل 18 اگست کو پارٹی نے صدارتی امیدواری کے لیے جو بائیڈن کے نام پر مہر لگا دی۔ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ کنونشن پہلی بار مکمل طور پر آن لائن ہورہا ہے جس میں 50 ریاستوں کے ڈیموکریٹک رہنماؤں میں سے بیشتر نے فون کال کے ذریعے شرکت کی۔
عام طور پر اس طرح کے کنونشن میں ریاستیں اپنے نمائندوں کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کی ریاست میں صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں کس امیدوار کو کتنے ووٹ ملے تھے۔ تاہم، کورونا وائرس کی وبا کے سبب اس بار مندوبین کی موجودگی کی گنتی آن لائن پیش کی گئی۔ ملک کے کونے کونے سے تمام طبقے کے ڈیموکریٹس نے جوبائیڈن کی حمایت میں ویڈیو کلپ کے ذریعے پیغامات بھیجے اور اس میں اس بات کی وضاحت کی کہ آخر انہوں نے کن اسباب کی بنا پر جو بائیڈن کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جوزیف بائیڈن کا تعلق ریاست ڈیلاویر سے ہے اور سب سے آخر میں جب اس ریاست کا نمبر آیا تو خود بائیڈن ایک اسکول سے لائیو حاضر ہوئے جہاں سے ان کی اہلیہ جل بائیڈن کو شام کے آن لائن جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ اس موقع پر بائیڈن نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے پیغام میں کہا، ”ہم تہہ دل سے آپ کے بہت بہت مشکور ہیں۔ آپ سب کا شکریہ۔ یہ میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے پوری دنیا کی طرح ہے، میں جمعرات کو آپ سے پھر ملوں گا۔”
اس چار روزہ آن لائن کنونشن کے دوسرے روز ‘لیڈر شپ میٹر” یعنی قیادت کی اہمیت پر بات چیت ہوئی جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ بائیڈن کی قیادت میں امریکا میں حالات معمول پر واپس لوٹیں گے۔ دوسرے روز سابق صدر بل کلنٹن، سابق وزیر خارجہ جان کیری اور کولن پاویل جیسے رہنماؤں نے کنونشن سے خطاب کیا۔ 95 سالہ سابق صدر جمی کارٹر بھی اس موقع پر مختصر سے وقفے کے لیے حاضر ہوئے۔
اس موقع پر بل کلنٹن نے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ بیان میں کہا، ایسے وقت میں اوول آفس کو کمانڈ کا مرکز ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے یہ تو طوفان کا مرکز ہے۔ وہاں بس بد نظمی ہے۔ وہاں صرف ایک ہی چیز میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی اور وہ ہے ذمہ داری سے انکار اور دوسروں پر الزام لگانا۔”
جو بائیڈن نے صدر اوباما کے ساتھ بطور نائب صدر 2009 سے 2016 تک کا م کیا تھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امید بننے کی دوڑ میں ان کے سب سے اہم حریف امیدوار برنی سینڈرز تھے تاہم آخر میں وہ بھی اس مقابلے سے الگ ہوگئے اور اس طرح جو بائیڈن نے گزشتہ جون میں اپنی صدارتی امیدواری کی نامزدگی کا راستہ ہموار کر لیا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے پارٹی کی جانب سے 1988 اور 2008 میں اس کی کوشش کی تھی تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
کنونشن کے پہلے روز خطاب کرنے والوں میں پارٹی میں صدارتی امیدواری کے لیے بائیڈن کے حریف برنی سینڈرز، سابق خاتو اول مشیل اوباما اور اوہائیو سے ریپبلکن پارٹی کے سابق گورنر جان کیشی سمیت کئی اہم لیڈر اور ڈیموکریٹ شخصیات شامل تھیں۔
اس موقع پر سابق خاتون اول مشیل اوباما نے اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ پر ان کی ناکارہ پالیسیوں کے لیے سخت نکتہ چینی کی تھی اور عوام سے کہا کہ وہ جو بائیڈن کے لیے ووٹ ڈال کر ہر جانب پھیلی افرا تفری کو ختم کریں۔ انہوں نے کہا تھا، ”میں حتی الامکان پوری ایمانداری اور وضاحت سے کہنا چاہتی ہوں کہ ہمارے ملک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ ایک غلط صدر ہیں۔’