تحریر: محمد اشفاق راجا ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ کامیاب دورہ روس اور ان خدشات کے پیش نظر کہ ترکی، امریکہ کی دوستی کو خدا حافظ کہہ کر کہیں مستقل طور پر ”روسی کیمپ” میں نہ چلا جائے، امریکی حکام بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ 24 اگست کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن ترکی کا دورہ کریں گے، اس سے دو روز قبل یعنی 22 اگست کو امریکہ کا ایک فنی ماہرین کا وفد بھی ترکی پہنچ کر اس امر کا جائزہ لے گا کہ کیا پنسلوانیا میں مقیم ترک سکالر فتح اللہ گولن کی ترکی کو حوالگی ممکن ہے اور اس کیلئے ترکی کے فراہم کردہ شواہد کافی ہیں۔ ترکی ناکام فوجی بغاوت کے بعد متعدد بار یہ مطالبہ کرچکا ہے کہ گولن کو امریکہ سے نکالا جائے اور ترکی کے حوالے کیا جائے۔ ترک حکام یہ الزام لگا چکے ہیں کہ 15 جولائی کو جن فوجی افسروں نے ناکام بغاوت کی تھی وہ نہ صرف گولن کی تحریک سے متاثر تھے بلکہ گولن انہیں اس مقصد کیلئے عرصے سے تیار کر رہے تھے تاہم جب بری اور ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے فوجی افسروں کے ایک گروپ نے بغاوت کردی تو بروقت اطلاع ملنے کے بعد صدر اردوان نے یہ بغاوت ناکام بنا دی۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پیشگی اطلاع روس کے صدر پیوٹن نے ترکی کو دی تھی جس پر صدر اردوان نہ صرف روسی صدر کے احسان مند ہیں بلکہ اندرون ملک مصروفیات کے باوصف خصوصی طور پر روس کے دورے پر بھی گئے۔ ان کے اس دورے نے امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں چنانچہ نائب صدر جو بائیڈن کے دورے کے بعد اکتوبر میں وزیر خارجہ جان کیری بھی ترکی کے دورے پر آ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجہ اب یہ ہے کہ ترکی کا مطالبہ ہے کہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے تاکہ ان پر ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کے سلسلے میں مقدمہ چلایا جاسکے۔ امریکہ ابھی تک ترکی کے اس موقف کا قائل نہیں ہوسکا کیونکہ گولن اس بغاوت میں ملوث ہونے کی نہ صرف تردید بلکہ مذمت بھی کرچکے ہیں تاہم ترکی کا مطالبہ اپنی جگہ بڑھتا جا رہا ہے اور وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ گولن کی حوالگی کے مسئلے پر امریکہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور ہر حالت میں یہ مطالبہ منوایا جائے گا۔
Fethullah Gulen
فنی ماہرین اور ان کے فوری بعد امریکی نائب صدر جوبائیڈن کا دورہ اسی سلسلے میں ہو رہا ہے۔ اعلیٰ سطح کے اس دورے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ترکی کا مطالبہ مان لے گا۔ شروع شروع میں جب ترکی نے یہ مطالبہ کیا تو امریکہ کا مؤقف تھا کہ اگر گولن کے خلاف ٹھوس ثبوت مہیا کردیئے گئے تو ترکی کے اس مطالبے پر غور کیا جائے گا۔ سفارتی محاذ پر صدر طیب اردوان کی زبردست سرگرمی اور روس کے دورے کے بعد کم از کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ امریکہ بھی ترکی کی درخواست پر غور کیلئے تیار ہے اور خود نائب صدر کو بنفس نفیس ترکی آنا پڑا ہے اور دو ماہ بعد وزیر خارجہ بھی دورے پر آ رہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نیٹو میں اپنے واحد مسلمان حلیف ملک کو کھونا نہیں چاہتا؟
کیونکہ اگر امریکہ کے ساتھ ترکی کے تعلقات بگڑ گئے تو اس امر کا امکان ہے کہ تعلقات کی یہ خرابی صرف امریکہ تک محدود نہ رہے اور اس کا اثر نیٹو پر بھی پڑے۔ ترکی سال ہا سال سے یورپی یونین کی رکنیت کیلئے کوششیں کرتا رہا ہے لیکن اس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ یورپی پیمانوں کے حساب سے ترکی میں انسانی حقوق کی صورتحال اچھی نہیں تھی۔ یورپی یونین یکے بعد دیگر ترکی سے مختلف مطالبے کرتا رہا جنہیں ترکی مانتا چلا گیا۔
Death Penalty
سزائے موت بھی ختم کردی کیونکہ یورپی یونین کے رکن کسی ملک میں یہ سزا مروج نہیں ہے، اس کے باوجود ترکی پر یورپی یونین کے دروازے بند رہے۔ یورپی یونین کی رکنیت تو ترکی کو ملتی ہے یا نہیں البتہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ ترکی میں موت کی سزا بحال کردی جائے، ترک صدر نے ناکام بغاوت کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ اگر ترک عوام چاہیں گے تو موت کی سزا بحال کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد عوام فوری طور پر سڑکوں پر آگئے تھے اور مسلسل پندرہ دن تک ہر رات کو مظاہرے کرتے رہے۔ مظاہروں کا اختتام ایک عظیم الشان ریلی سے ہوا جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اور دو اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی ان میں شریک ہوئے جس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ باغیوں کو سزائے موت دی جائے تاہم اب یہ مسئلہ وقتی طور پر پس منظر میں چلا گیا ہے اور سامنے کا مطالبہ یہ ہے کہ امریکہ سے ہر حالت میں گولن کی حوالگی کا مطالبہ منوایا جائے گا اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا ہے کہ گولن کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باوجود امریکہ میں پناہ دینے پر ترک عوام کے جذبات امریکہ کے خلاف مشتعل ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی نے امریکہ کو ایسے ثبوت پیش کردیئے ہیں جن سے ثابت ہو جاتا ہے کہ گولن ناکام بغاوت کی ڈوریاں ہلا رہے تھے۔ ترکی کو یقین ہے کہ امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس معاملے پر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حوالگی کے معاملے پرامریکی قوانین موجود ہیں جن کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا لیکن اس کیلئے ترکی کو ٹھوس شواہد پیش کرنے ہوں گے۔ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد گولن کے ہزاروں حامیوں کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا ہے۔ ان کی این جی او کے زیراہتمام چلنے والے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں یہاں تک کہ بیرونی ملکوں کو جن میں پاکستان بھی شامل ہے یہ سکول بند کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ پاکستان میں ترک سکولوں کے ترک پرنسپلوں کو عہدوں سے ہٹاکر پاکستانی سٹاف لگا دیا گیا ہے۔