تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم جس خطے میں ہم رہتے ہیں ، یہ خطہ صدیوں سے کئی حوالوں سے دوسروں کا محتاج رہاہے محتاج ہے اوراگر یہ ابھی نہ سنبھلا تو ممکن ہے کہ یہاں آئندہ بھی یوںہی محتاجی کا سلسلہ چلتا رہے، یہاں حکمرانوں سے لے کر وضع کردہ قوانین ، قرضے ، امداد اور مہنگائی بڑھانے کے مشورے اور ڈکٹیشن اور انارگی پھیلانے والے دہشت گرد تک تو امپورٹ ہوکر آتے ہیں، الغرض یہ کہ آج ہمارے یہاں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جو بیرونی اثرات سے خالی ہو، اور اَب تو حا لت یہ ہے کہ ہماری تہذیب بھی باہر سے رفتہ رفتہ آنے والی مغربی تہذیب کے زیراثر دبتی چلی جارہی ہے آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم نے اپنی تہذیب کو سہارا نہ دیاتوخاکمِ بدہن عین ممکن ہے کہ ہماری رہی سہی اور بچی کُچی تہذیب و ثقافت اپنی ہی سرزمین میں دفن ہوجائے اور اِس کا نام و نشان تک بھی مٹ جائے اور ہمارا سارا معاشرہ مغربی بے حیا ئی اور ننگے پن کی تہذیب اور کلچر کو اپنا لے کیونکہ یہ مشہورہے کہ بُرائی میں لذت ہے اور اچھائی میں مشکلات ہوتی ہیں اِ س میں شک نہیں ہے کہ آج ہما رے خطے میں اپنی بہت کم ہی ایسی اچھی خصلتیں رہ گئیں ہیں اَب جنہیں ہم انگلیوں پر ہی گِن سکتے ہیں یعنی جتنی انگلیاں بس اُتنی ہی اچھی خصلتیں باقی ہیں ورنہ تو ایسی اور کوئی بات نہیں ہے جو اِس خطے کی وجہ شہرت بنے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج ہم اپنا وجود رکھ کر بھی خود کوبے وجود محسوس کررہے ہیں،اِس عالمِ بے خود ی میں ایسے قدم اُٹھارہے ہیں،جو کسی بھی حوالے سے کہیں سے بھی ہمارے لئے کارآمد ثابت نہیں ہوسکتے ہیں، آج اُوپر سے لے کر نیچے تک سب ہی اپنی ذات اور اپنے حلقہ احباب تک سوچنے اور کرنے کی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے کسی کو اپنے مفادات کے علاوہ مُلک اور قوم کی کوئی فکر نہیںہے،سب نے اپنی آنکھوں پر خود غرضی اور مفادات پرستی کا عینک لگایا ہواہے سب کو اپنی جیب اور اپنا دامن بھرنے کی فکرِ مکروہ لاحق ہے،قومی خزانے پر حکمران طبقہ شیش ناگ بنا بیٹھا ہے اور قومی خزانے کی حفاظت کی آڑ میں خود ہی مزے لوٹ رہاہے اور یہاں بھی عیاشیاں کررہا ہے اور قومی دولت لوٹ کر باہر لے جا کر وہاں کے بینکوں میںرکھ کر عیش و طرب کی گھٹی میں اپنا سر اور انگلیاں ڈبورہاہے مگر اِس کے برعکس یہاں میرے مُلک میرے معاشرے کے میرے غریب اور مفلوک الحال لوگ اپنی بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں اُلٹا قومی خزانہ لوٹ کھانے والوں نے میرے مُلک کے غریب اور پریشان حال پاکستانیوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کھربوں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی ، قتل وغارت گری ، فرقہ واریت ، انارگی اور گندم ، چینی ، گھی اور توانائی بجلی ، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے بحرانوں جکڑ رکھاہے۔
اِس میں شک نہیں کہ آج جس خطے میں میرا اور آپ کا یہ دیس پاکستان آباد ہے یہ خطہ کئی لحاظ سے بہت سے قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر بدقسمتی سے اِن وسائل کو بروئے کار لانے والا کوئی نہیں ہے، آج اگر میرے دیس پاکستان کو کوئی جہاں دیدہ اورمخلص لیڈر کی صورت میں بہادر مسلمان حکمران مل جائے تو یقینا میرا مُلک اپنے قرضوں سے نجات حاصل کر لے گا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر اُوجِ ثُریا کی بلندی سے بھی بہت آگے نکل جا ئے گا مگر بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کوئی بھی میرے وطن کو جہاں دیدہ اور مخلص رہنماءنصیب ہی نہیںہوا ہے آج جتنے بھی رہنما ءموجود ہیں سب نے اپنے چہروں پر مصنوعی مخلصیت کا خول چڑھارکھا ہے سب بہروپئے ہیں کوئی مُلک اور قوم کی فلاح وبہبود سے مخلص نہیں ہے۔
America and China
یہاں اِس امر سے انکار ممکن نہیںہے کہ امریکااور چین ہمارے دوست ہیں اِس میں شک نہیں ہے کہ چین ہمارا ایسا دوست ہے جو ہمارے ہر اچھے بُرے وقت میں ہمارے ساتھ سب سے پہلے کھڑاہوتا ہے یہ وہ دوست ہے جس نے ہماری ہر موقع پر اپنی کھلم کھلا حمایت کی ہے اِس نے بہت سے ایسے مواقع پر بھی دوٹوک انداز سے ہمارے حق میں اپنا موقف واضح کیا ہے جن پر دنیا کے بیشتر ممالک کو شدیدتحفظات تھے مگر جب اُنہوں نے یہ دیکھاکہ چین ہماری حمایت میں ہے تو اُنہیں بھی اپنے تحفظات پر نظر ثانی کرنی پڑی اور پھر خود ہی خاموشی اختیار کرنی پڑی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ فخر اپنے دوست و بھائی چین پر ہے جس نے ہماری ہر لحاظ سے اپنی مدد جاری رکھی ہوئی ہے آج تب ہی تو ہم خطے اور دنیا میں سر اُٹھا کر اور اپنا سینہ چوڑاکرکے چل رہے ہیں اور ہمارے اِس عمل سے بھارت جیسے اپنے ازلی موقعہ پرست دُشمن پر ہیبت طاری کئے ہوئے ہیں ہماری چین سے دوستی اور یکجہتی کا یہی عالم تو بھارت کی آنکھ میںکھٹکتا ہے جس نے اِسے سپوتاژ کرنے کی بہت کوششیں کیں مگراِسے ہر بار ہی منہ کی کھانی پڑی ہے۔
جبکہ ہمارے یہاں پچھلے چند سالوں کے دوران کچھ معصوم اور کم عقل سیاسی بچوں اور لینڈمافیا سے تعلق رکھنے والے گروہ نے سرکاری (کھیل کے میدانوں، پارکوں اور دفاتر کے لئے مختص کی گئیں )زمینوں پر قبضے کے لئے چائناکٹنگ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اربوں کی زمین اِدھر اُدھر شو کرکے اُونے پونے داموں بیچ ڈالیں آج اُن عناصر کے خلاف آپریشن جاری ہے اور سرکاری زمین کو چائنا کٹنگ کی اصطلاح استعمال کرکے بیچ کھانے والوں کی پکڑ دھکڑجاری ہے اور اُن سے زمینیں اور قومی دولت بازیاب کرانے کا عمل برق رفتا ری سے ہورہاہے یعنی یہ کہ چین سے دوستی اور محبت و الفت اور یکجہتی کے نام پر ہمارے کچھ لوگوں نے چین سے کوئی اور اچھی چیز تو نہ سیکھی۔
مگرچین کے نام پرسرکاری زمینوں کی چائنا کٹنگ کا کلچر ضرور متعارف کردیاہے اور اِسی طرح ہمارا ایک اِبنُ الوقت اور مفادپرست دوست امریکا بھی ہے جو اپنی خصلت اور موقعہ پرستی میں اپنی مثال آپ ہے اِسے ہم سے جب بھی کبھی اپنے مفادکا سُودا کرناہوتا ہے یہ ایک لمحہ ضیائع کئے بغیر فوراََ اپنے مفادات کا سودا کربیٹھتا ہے اور ہم اِس کی مفادپرستانہ خصلت سے واقف ہوکر بھی کچھ نہیں کرپاتے ہیں اور اِس کے آگے جُھک کر وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں جو ہمیں نہیںکرناچاہئے آج اِس کی مفاد پرستی کا جادوہم پرایسا چڑھ گیاہے کہ اَب ہم اپنی زندگیوں میں بھی مفاد پرستی کو پروان چڑھانے لگے ہیں۔
Azam Azeem Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com