ایران (جیوڈیسک) امریکہ میں صدارتی انتخاب سے قبل ہونے والی مہم کے دوران ریپبلکنز بشمول ان کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس رقم کی ادائیگی پر اوباما کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایران نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے جنوری میں دی گئی ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی رقم دراصل تہران کی وہی رقم ہے جو 1979ء کے انقلاب سے پہلے سے امریکہ کے پاس تھی۔
ایران کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کے اس موقف کی تائید ہے کہ یہ رقم ایران سے امریکی قیدیوں کی رہائی یا جوہری معاہدے کے عوض نہیں دی گئی۔
اوباما انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ رقم جوہری معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے فوراً بعد ادا کر دی گئی تھی اور جیسا کہ بعض ریپبلکنز الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ان پانچ امریکی قیدیوں کی رہائی کا تاوان تھا، یہ درست نہیں۔
ایران نے امریکہ اور دیگر پانچ عالمی طاقتوں کے ساتھ گزشتہ سال ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسے اپنا جوہری پروگرام محدود کرنا ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کہتے ہیں کہ رقم کی منتقلی ایران کے اس قانونی دعوے پر عملدرآمد کے نتیجے میں ہوئی جس پر جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات کے علاوہ بات چیت کی جاتی رہی۔
ایران کے تقریباً چالیس کروڑ ڈالرز کے اثاثے امریکہ نے 1981ء میں منجمد کر دیے تھے جن پر ایک ارب تیس کروڑ ڈالر منافع بھی شامل ہے۔ یہ رقم 1979ء کے انقلاب سے قبل ایران نے امریکہ سے فوجی سازوسامن خریدنے کے لیے دیے تھے۔
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شمخانی کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری خبر رساں ایجنسی “ارنا” نے بتایا کہ “امریکہ سے چالیس کروڑ ڈالر کی ایران کو منتقلی کا تعلق اس فوجی سازوسامان کے سودے کی مد میں دی گئی رقم سے ہے جو انقلاب سے پہلے ہم نے ادا کی تھی اور اس کا جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں۔”
امریکہ میں صدارتی انتخاب سے قبل ہونے والی مہم کے دوران ریپبلکنز بشمول ان کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اس رقم کی ادائیگی پر اوباما کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
علی شمخانی کا کہنا تھا کہ ایران معاملے کی تفیصلات میں نہیں پڑنا چاہتا اور ان کے بقول امریکیوں کو اپنے انتخابی ماحول میں خود سے اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانے دیا جائے۔