تحریر: کامرن گھمن قارئین کرام؛ آج سے ٹھیک 38 سال پہلے امریکہ بہادر نے پاکستانی “ملا ملٹری الائنس” کی مدد سے پاکستان بلکہ ایشیا بھر کے اُبھرتے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو منظر عام سے ہٹاکر، “آزادی” کے نام پر حاصل کردہ پاکستان نامی اپنی کالونی پر کمزور ہوتا “ہولڈ” پھر سے مستحکم کر لیا۔۔
وہ دن اور آج کا دن، بھٹو شہید کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں متعارف کرائی گئی’اعتدال پسندی اور میانہ روی‘‘ کو ایسا ریورس گیئر لگا کہ آج مذہبی تنگ نظری و تشدد سے بھرپور شدت پسندی اورمنافقت و بدعنوانی سے بھرپور طرز زندگی، بس یہی ’’اعلیٰ ترین خصائل‘‘ ہی پہچان بن کر رہ گئی ہیں، دُنیا بھر میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی۔۔
اور یہی ہے بعد از بھٹو سامنے آنے والی وہ ’’جوہری تبدیلی‘‘، جس کا ثمر ہم نے ستر ہزار معصوم پاکستانیوں کے لاشے اٹھا کر حال ہی میں پایا۔اور نہیں معلوم کہ من حیث القوم، بربادی اور تباہی کی ان تاریک راہوں میں ہم کب تک یونہی بھٹکتے رہیں گے کیونکہ دُور دُور تک ’’ کوئی اُمید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظرنہیں آتی۔۔جی ہاں؛ معاشی طور پر خودمختار، دفاع میں خود کفیل اور مذہبی ، لسانی تعصبات سے پاک یعنی ترقی کی شاہراہ پر گامزن پاکستان بھلا ’’ان‘‘ طاقتوں کو کیونکر منظور ہوتا جوروز اول سے ہی اس ملک کو اپنی باجگذار ریاست سمجھ کر ’’کفر و الحاد کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ‘‘ کا درجہ دئے بیٹھے تھے؟؟
چنانچہ فیصلہ صادر ہوا ،اُس زُلفی کو منظر عام سے ہٹا کر اپنی ’’کالونی‘‘ پر قبضہ پکا کرنے کا، جس نے مختصر ترین مدت میں’’توحید پرستوں کے نام نہاد علم بردار‘‘ امریکہ بہادر اور ’’ترقی پسندی کی نام نہاد علامت’’ سوویت یونین‘ کے مقابلے میں، تھرڈ ورلڈ اور اسلامی بلاک کے متفقہ لیڈرکے طور پر سامنے آکر مستقبل کے تمام ’’خطرناک ‘‘ اردارے ظاہر کردئے تھے۔۔
Pakistan
بھٹو شہید نے پھانسی کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھی اپنی کتاب میں قوم سمیت دُنیا بھر کو بجا طور پر متنبہ کیا تھا کہ “اگر مجھے پھانسی پر چڑھا دیا گیا تو پاکستان سے روشن خیالی اور ترقی کی اُمید کے خاتمے اور اس بدقسمت ملک کو مذہبی شدت پسندی کے مضبوط شکنجے میں جکڑتا دیکھ کر ہمالیہ بھی رو پڑے گا” اور بھٹو کی شہادت کے سال 1979 سے ہی شروع ہونے والے “امریکی جہاد افغانستان میں “مُملکت خُداداد” کی غیر ضروری شمولیت کے منطقی نتیجے کے طور پر وطن عزیز میں در آئی مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے مسلمانوں کے ہی ہاتھوں خود مسلمانوں کے بہتے خون کی شکل میں ہمالیہ روئے چلا جا رہا ہے۔
خون کے آنسو مُسلسل۔۔بہا رہا ہے جی ہاں جناب ؛ ٹھیک اُسی دن سے ہی جس دن دیکھا اُس نے کہ کیسے خاکیوں نے اپنی گُماشتہ عدالت کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھادیا، پاکستان کے پہلے نیشنلسٹ سیاست دان کو، فخر ایشیا کو، مُملی بلاک اور تھرڈ ورلڈ کے متفقہ لیڈر اور قائد عوام کو۔۔ اسلئے کہ وہ عقل اور اہلیت دونوں رکھتا تھا، مُسلم اکثریت والی اس “مُملکت خُداداد” کو مُلا ملٹری اتحاد کے ناپاک چُنگل سے چھڑا نے کی، وہ بھی عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر، انہیں اعتدال روی کی راہ پر چلاتے ہوئے۔۔
دوستو اور ساتھیو؛ جرم شہید بابا کا یہ بھی تھا کہ وہ کامیابی سے قدم بڑھا چکا تھا، نام نہاد توحید پرستوں کے امریکی بلاک اور نام نہاد الحاد پرستوں کے سوویت بلاک، ہر دو کے مقابلے میں شاہ فیصل، کرنل قذافی اور یاسر عرفات جیسے مسلم لیڈرز کی ہمنواہی میں ایک “معتدل مُسلم بلاک” کی جانب۔۔ اور پھر اس عالم اسلام کے اتحاد کے داعی کو راستے سے ہٹادینے کے بعد جہاں “ضیاء الباطل” کی بدرُوح کا برہنہ رقص تھمنے میں نہیں آرہا، وہیں المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نام نہاد “ترقی پسند” اپنے غیر فطری “کعبہ” سوویت یونین کے انہدام کا ذمہ دار اسی “بُھٹو” کا قرار دے کر اس کی رُوح پر تبرہ بازی سے تھکتے نہیں۔۔ زندہ ہے بُھٹو، زندہ ہے۔۔