شام (جیوڈیسک) شام میں چھ سال کی بدترین خانہ جنگی اور کشت وخون کو روکنے کے لیے امریکا اور روس کے درمیان ایک ابتدائی سمجھوتہ طے پایا ہے۔ دوسری جانب شامی اپوزیشن نے اس سمجھوتے کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ صدر بشارالاسد نے وحشیانہ بمباری سے دو درجن سے زاید افراد کو ہلاک کرکے اپنی ہٹ دھرمی واضح کردی ہے۔
غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق شامی اپوزیشن کی نمائندہ کونسل کی ترجمان بسمہ قضمانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور روس کی طرف سے شام میں جنگ بندی کا اعلان مصیبت زدہ لوگوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ اس اعلان سے شامی عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
شامی اپوزیشن کی سپریم مذاکراتی کونسل کی ترجمان نے کہا کہ کونسل امریکا اور روس کے درمیان طے پائے جنگ بندی سمجھوتے کاخیر مقدم کرتی ہے مگر یہ اعلان کاغذی اور ہوائی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پرعمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کی سب سے زیادہ ذمہ داری روس پرعاید ہوتی ہے کیونکہ روس اس وقت بشارالاسد رجیم کی ترجمانی اور نمائندگی کرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بسمہ قضمانی نے کہا کہ انہیں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ امریکا اور روس شام میں جنگ بندی پر متفق ہوگئے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو اچھی بات ہے مگرانہیں ابھی تک اس اعلان کی باضابطہ نقل موصول نہیں ہوئی ہے۔ شامی اوزیشن اپنا باضابطہ موقف مشاورت کے بعد ہی جاری کرے گی کیونکہ اس طرح کے اعلانات کو عموما شک وشبے کی نگاہ ہی سے دیکھا جاتا ہے۔
ادھر اپوزیشن کے حامی ایک عسکری گروپ نورالدین زنگی بریگیڈ کے ترجمان عبدالسلام عبدالرزاق نے ایک بیان میں امریکا اور روس کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کو بے معنی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان طے پائے جنگ بندی سمجھوتے کا مقصد بشارالاسد کو اپنی منتشر دفاعی قوت مجتمع کرنے اور ایرانی حمایت یافتہ شدت پسندوں کو حلب میں جارحیت تیز کرنے کا ایک اور موقع دینا ہے۔
شامی جیش الحر کے ماتحت ایک دوسرے گروپ کے لیڈر فارس البیوش کا کہنا ہے کہ اس طرح کے جنگ بندی کے اعلان ماضی میں بہت ہوئے ہیں مگر روس اور اسد رجیم نے ان پرکبھی عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ اس اعلان کی کامیابی کے امکانات بھی ماضی کے اعلانات سے مختلف نہیں ہوسکتے۔