برلن (جیوڈیسک) جرمن ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے سینئر جرمن اہلکاروں سمیت سیاستدانوں اور اہم کاروباری اشخاص کی جاسوسی اب بھی جا ری ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جاسوسی ترک کر دینے کے احکامات کے بعد اب امریکا کی قومی سلامتی سے متعلق نیشنل سکیورٹی ایجنسی ( این ایس اے) نے دیگر اعلیٰ جرمن حکام کی جاسوسی تیز تر کر دی ہے۔ اس وقت کُل 320 جرمن شہریوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے، جن میں اعلیٰ حکام، سیاستدان اور اہم کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ یہ معلومات جرمنی میں موجود این ایس اے کے ایک اعلیٰ اہلکار کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں اور جن افراد کی جاسوسی کی جا رہی ہے ان میں سابقہ وزیر دفاع اور موجودہ وزیر داخلہ تھوماس ڈی میزیئر بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ڈی میزیئر چانسلر میرکل کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔
اخبار کی رپورٹ میں این ایس اے کے اس اہلکار کے ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ ہمیں یہ احکامات ہیں کہ اب جبکہ ہم چانسلر کی براہ راست جاسوسی نہیں کر سکتے۔ ہم سے کوئی بھی معلومات بچنی نہیں چاہئیں۔ اس رپورٹ کے ردعمل میں جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ جن افراد کے نام نہیں بتائے گئے ان کی جانب سے ان الزامات پر کوئی بیان جاری نہیں کیا جا رہا۔
اس رپورٹ میں صدر اوباما کی مشیر برائے سلامتی کائٹلن ہیڈن کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکا یہ واضح کر چکا ہے کہ معلومات اسی طرح جمع کی جاتی ہیں جیسا کہ دیگر ریاستوں میں ہیں۔ ہیڈن نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے کاروباری معاملات میں فوائد حاصل کرنے کے لیے کارپوریشنوں کی جاسوسی نہیں کی جاتی۔
ادھر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر اسی جمعرات کے روز امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں۔ گزشتہ برس این ایس اے کے سابقہ کانٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے جاسوسی سے متعلق انکاشافات بالخصوص چانسلر انجیلا مرکل کے ٹیلی فون کی جاسوسی کے تناظر میں برلن انتظامیہ ایسی کوششوں میں مصروف ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ’ نو سپائی‘ یا جاسوسی مکمل طور پر ترک کر دینے کے کسی سمجھوتے کو حتمی شکل دی جائے۔ البتہ اشٹائن مائر اس حوالے سے خدشات کا شکار ہیں کہ آیا یہ مجوزہ ڈیل موثر ثابت ہو سکے گی۔