روس (جیوڈیسک) روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے بتایا ہے کہ امریکہ شام میں صدر بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے کی جانے والی مسلح کوشش میں ایک جہادی گروپ کو بچانا چاہتا ہے۔
سرگے لاوروف نے کہا کہ امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جبھۃ فتح الشام گروپ کو شام میں سرگرم باقی انتہا پسند اور اعتدال پسند گروپوں سے علیحدہ کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ نے حلب پر روسی اور شامی افواج کی بمباری کا بھی دفاع کیا۔ جبھۃ فتح الشام القاعدہ سے تعلق رکھنے والا ایک جہادی گروپ ہے۔
روسی وزیر خارجہ شام میں روسی کارروائیوں کے ایک سال مکمل ہونے پر بات کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ النصرہ کو باقی مخالفین سے علیحدہ کرنے کی ذمہ داری ترجیحی بنیادوں پر ادا کرے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ متعدد وعدوں اور بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود وہ ابھی تک یا تو کر نہیں پائے یا کرنا ہی نہیں چاہتے اور ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ابتدا ہی سے وہ النصرہ کو بچانا چاہتے تھے تاکہ اسے متبادل منصوبے کی صورت میں استعمال کیا جائے یا دوسرے مرحلے میں جب حکومت کو تبدیل کرنے کا وقت آئے تو اس کو آگے لایا جائے۔
امریکہ اور روس میں ہونے والا تازہ ترین معاہدے کا مطلب دولت اسلامیہ نامی نام نہاد تنظیم اور جبتھ فتح الشام نامی گروپ کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جائیں۔
لیکن بہت سے معتدل باغی گروپوں نے امریکی کی حمایت یافتہ نسبتاً طاقت ور گروپ الفتح الشام کے ساتھ اتحاد بنا لیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران حلب کے محصور شہر پر روس اور شامی افواج کی بمباری کی وجہ سے چار سو سے زیادہ شہری ہلاک ہوگئے ہیں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔
لاوروف نے اصرار کیا کہ روس دہشت گردوں کے خلاف اسد حکومت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ انھوں نے مغربی ملکوں پر الزام لگایا کہ حلب شہر میں شہری ہلاکتوں پر مغربی ممالک اس وقت بالکل خاموش رہے جب النصرہ کے جنگجو شہر پر چڑھائی کر رہے تھے اور انھوں نے شہر کو پہنچنے والی تمام امداد بند کر دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ اس سال کئی مرتبہ جنگ روکی گئی۔ کبھی 48 گھنٹے کے لیے کبھی 72 گھنٹے کے لیے۔ روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہر مرتبہ یہ وقفے النصرہ فرنٹ نے کمک اور تازہ دم جنگجو حلب پہنچانے کے لیے استعمال کیے ہیں۔
حلب میں روسی بنکر شکن ، فاسفورس بموں اور کلسٹر بموں کے استعمال کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ‘اگر ایسا ہوا ہے تو انھیں افسوس ہے۔’
لیکن انھوں نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ ان الزامات کا کوئی بامعنی ثبوت موجود نہیں اور ان کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ایسا کوئی بارود استعمال نہیں کر رہے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت ممنوعہ ہو۔