کراچی (جیوڈیسک) رینجرز نے ایم کیو ایم کے کارکن عمیر صدیقی کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ جاری کر دی، ملزم نے 120 افراد کو قتل کرنے کا انکشاف کیا ہے جبکہ بلدیہ فیکٹری میں آگ سیکٹر انچارج رحمان بھولا کے ساتھ مل کر لگانے کا بھی اعتراف کیا ہے۔
سندھ رینجرز نے ایم کیو ایم کے کارکن عمیر صدیقی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جس کے بعد ملزم کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ بھی جاری کر دی گئی ہے۔ رینجرز ترجمان نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ عمیر صدیقی کو متحدہ کے مخالفین کو ٹارگٹ کلنگ کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
ملزم نے 120 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے ۔ عمیر صدیقی نے ٹارگٹ کلرز کی ٹیم بنارکھی تھی جس میں 23 ٹارگٹ کلر شامل تھے۔ ملزم کو قتل کے تمام احکامات کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارچ حماد صدیقی سے ملتے تھے ۔ ترجمان رینجرز کے مطابق فیصل رضا عابدی کے گارڈ شاہد حسین اور متحدہ رہنما عامر خان کے بھتیجے صبیح اللہ کے قتل میں بھی عمیر صدیقی ملوث ہے۔
ٹارگٹ کلنگ ٹیم متحدہ کے مخالفین کے ساتھ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بھی قتل کرتی رہی ۔ ملزم نے انکشاف کیا ہے کہ 2008 میں متحدہ کے ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی نے میٹنگ میں لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ تیز کرنے کی ہدایت کی۔
رینجرز ترجمان کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ وہ کوئٹہ کے ایک ڈیلر کے ذریعے متحدہ کیلئے اسلحے کی خریداری کرتا تھا جس میں 40 کلاشنکوف ، 8 ایل ایم جی ، 1 راکٹ لانچر ، 6 جی تھری اور 3 ایم جی کی کھیپ خریدی ۔ فروری 2015ء میں تمام سیکٹر انچارجز کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اضافی اسلحہ نائن زیرو جمع کرا دیں ، یہ اسلحہ ایمبولینسوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔
عمیر صدیقی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ بلدیہ کے سیکٹر انچارج رحمان بھولا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لگائی ۔ ملزم نے بتایا کہ نائن زیرو کے اطراف میں 250 سے 300 ٹارگٹ کلر موجود ہیں۔