نکل کے صحرا سے جس نے روماکی سلطنت کو اْلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہشیار ہوگا
عالم اسلام کے اتحاد کولے کر ہر طرف باتیں ہو رہی ہیں کوئی فرقہ واریت، کوئی اجارہ داری اور کوئی اقتدار کے لالچ جیسے الفاظ سے یاد کر رہا ہے۔ کل تک جو کہتے تھے کہ عالم اسلام کو ایک ہوجاناچاہیئے انہیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔ آج وہی لوگ سعودی عرب کی طرف سے اس طرح کی کوشش کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ذرا عالم اسلام کے اتحاد سے پہلے نیٹو (ناٹو، NATO) پرایک نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ اسلامی ملکوں کے اتحاد اور نیٹو ممالک کے اتحاد میں کس قدر فرق ہے ۔شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم (NATO ۔ North AtlantiTreatyc Organisation) جسے شمالی اوقیانوسی اتحاد، اوقیانوسی اتحاد یا مغربی اتحاد بھی کہا جاتا ہے۔
ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو 4 اپریل 1949ء کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ایک معاہدے کے تحت عمل میں لائی گئی۔ فرانسیسی زبان میں اس کا باضابطہ نام Organisation du Trait233 de l’Atlantique Nord ہے۔جب نیٹو قائم ہوئی تو اس کا بنیادی مقصد روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے بندباندھنا تھا۔ نیٹو کوئی اچانک یاحادثاتی طور پر بننے والا اتحاد نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل پلاننگ اور اپنی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بنایاجانے والا اتحاد تھا ۔ ایک بنیادی وجہ دنیا پر اپنی طاقت کارعب ڈالے رکھنا بھی تھا ۔آج ہم جس طرح کے حالات میں جی رہے ہیں یہ وہیں حالات ہیں جن کا خواب بیسویں صدی کے پانچویں عشرے میں دیکھا گیا اور جس کی تعبیر کے لیے نیٹو جیسے ادارے بنے۔جب کہ عالم اسلام کے اتحاد کا مقصد اجارہ داری یا دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ اپنے جائز حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کو اپنے ممالک میں پنپنے سے روکنا ہے۔
NATO
نائن الیون کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کوخاک و خون میں نہلا دیاگیا۔ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا الزام لگایا اوروہاں بھی آتش و آہن کی بارش کر کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بغیر کسی ثبوت کے مسلمان ملکوں کیخلاف پروپیگنڈا کیااور مسلم خطوں و علاقوں پر قبضے کر نے کیلئے ڈیزی کٹر بم برسائے جاتے رہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ اقوام متحدہ جیسے اداروں نے بھی امریکہ کی لونڈی ہونے کا کردار ادا کیا اور نہتے مسلمانوں کابہتا ہوا خون روکنے کیلئے کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ امریکہ کی قیادت میں نیٹوفورسز نے مظالم کی نئی داستانیں رقم کیں اوردنیا کو اپنی طاقت دکھائی ۔نیٹو کے مظالم کا سب سے زیادہ شکار مسلم ممالک ہی ہوئے۔
عالم اسلام کی اس وقت ابترحالت ہے۔ ایک طرف اگر پاکستان اندرونی وبیرونی دہشت گردی سے نپٹ رہاہے تو سعودی عرب کو حوثی قبائل سے خطرات لاحق ہیں اور داعش جیسی فتنہ پرور تنظیم کے دھماکے بھی سعودی عرب کو آنے والے خطرات سے آگاہ کررہے ہیں ۔ترکی میں ہونے والے دھماکے بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔افغانستان،عراق،شام اور دیگر اسلامی ممالک پر ہونے والے حملے اور کشمیر ،فلسطین،لیبیا اور برمی مسلمانوں کا مسئلہ عالم اسلام کے لئے ایک مسلسل اذیت کا سبب ہے۔کشمیروفلسطین کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ بن چکاہے جسے اقوام متحدہ جیساادارہ بھی حل نہیں کررہا۔شام میں بشارالاسدی افواج ،ان کے حمایتی اور داعشی خوارج جس طرح سے مل کر سنیوں کو قتل کررہے ہیں وہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔سیدھی بات ہے کہ عالم کفر اور منافقین مسلمانوں کوایک ہوتا ہوانہیں دیکھ سکتے ۔شاہ فیصل مرحوم اور ذوالفقاربھٹو جیسی شخصیات کانام آج بھی عالم اسلام میں احترام سے لینے کی وجہ ان کی عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوششیں تھیں۔
عالم اسلام میں ایک رونا ہرکوئی روتا ہے، چاہے وہ دائیں بازوسے ہو یاپھر بائیں بازو سے کہ عالم اسلام کو متحد ہوناچاہیئے ۔ او۔آئی ۔سی کیاکررہی ہے ؟ای سی اوکا اتحاداور عرب لیگ کس مرض کی دواہیں ؟یعنی کہ مسلمانوں کی متحد نہ ہونے کی وجہ کیاہے اورمسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کیوں نہیں کررہے ۔یہ درد سب کے سینے میں موجودہے ۔اب جب سعودی عرب نے چونتیس ممالک کو اکٹھا کرکے ایک اتحاد کے بنانے کی کوشش کی ہے اور ابھی حال ہی میں ’’رعد الشمال ‘‘ نامی جنگی مشقوں نے یہ ظاہر کردیاہے کہ عالم اسلام اتحاد کی جانب بڑی تیزی سے گامزن ہے ۔ایسے میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہے اور کوئی شامی فتح کا ڈھنڈوراپیٹ رہاہے ،کوئی کہہ رہاہے کہ سعودی عرب یمن کو زیرنگیں کرناچاہتا ہے۔
جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق ہرکوئی اپنی ڈفلی بجاکر اپنی بات کی اہمیت دکھارہاہے ۔پہلے یہ فیصلہ کرناہوگا کہ کیامسلمان آپس میں تقسیم رہیں ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں غیروں سے بھی بدتر سلوک کریں یا پھر انہیں باہمی اتحاد واتفاق کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ملت واحدہ بننا چاہیئے ۔سعودی عرب نے ایک بہترین قدم اٹھا یا ہے اور یہ وقت کی شدید ضرورت بھی تھی ۔ ان مشقوں میں ملائیشیا،مصر،پاکستان ،سوڈان اور خلیجی ممالک نے حصہ لیا ۔ ان ممالک کے سربراہان نے ان مشقوں کا معائنہ بھی کیا ۔ یہاں پاکستان کے نواز شریف بھی تھے اور سوڈان کے عمر البشیر بھی۔ یمن کے عبدالہادی بھی تھے ا ور مصر کے جنرل السیسی بھی۔اتنی بڑی فوجی مشقیں شاید ہی دنیا میں کسی نے کی ہوں گی ۔ ذرا ’’رعد الشمال ‘‘ کودیکھیں کس طرح سے فائر پاور کا مظاہرہ کیا گیا ۔ ساڑھے تین لاکھ فوجی،بیس ہزار ٹینک، ساڑھے چار ہزار لڑاکا اور بمبار طیارے، اور چار سو ساٹھ ہیلی کاپٹر اس میں حصہ لے رہے تھے۔ اتحاد عالم اسلامی کی جانب یہ ہماراپہلا قدم ہے ۔ اگر یہ ہو گئی ہے تو اس پر تنقید کاہے کو، شکوک و شبھات کیوں؟۔اس مشق کے منتظمین نے کسی وقت بھی یہ نہیں کہا کہ یہ ایران یا شام کے خلاف ہے یا عراق کے خلاف ہے۔
21 Countries For Military Exercises
عالم اسلام کے اتحاد پر اور 21 ممالک کی فوجی مشقوں پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑنا ایک فطرتی عمل تھا ۔’’رعدالشما ل ‘‘ مشقوں کے ذریعے دنیا کو ایک پیغام لازمی طور پر مل گیاہے کہ عالم اسلام حالیہ چیلنجز کا سامناکرنے کیلئے ایک صف میں کھڑے ہیں ۔ پاک فوج کی آپریشنل اور پیشہ وارانہ صلاحیتیوں کو تمام ممالک کی طرف سے سراہاگیا اور اس اتحاد کے بنیادی نیٹ ورک کی تیاری کے لئے پاکستان کو کہاجانا یقینااہل پاکستان کے لئے فخر کی بات ہے ۔ایک لمبے عرصے سے عالم اسلام میں مذہبی تنظیمیں اور مسلمانوں کا درد رکھنے والی عالم اسلام کی شخصیات کی جانب سے مسلم حکمرانوں پر زور دیا جارہا تھا کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل اتحا دویکجہتی کا راستہ اختیا رکرنے اور اپنے قدموں پر کھڑاہونے میں ہے ‘ اس لئے مسلم ملکوں کے اتحاد پر توجہ دی جائے۔
ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جن ملکوں اور عالمی اداروں سے مسلم حکومتیں امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں کہ وہ آپ کے مسئلے حل کریں گے اصل میں یہی وہ قوتیں ہیں جن کے یہ مسائل پیداکردہ ہیں تاکہ عالم اسلام باہمی انتشار وافتراق میں پڑارہے اور ان مسائل کی اصل جڑ انہی قوتوں سے جڑی ہوئی ہے۔کیوں کہ یہ قوتیں جانتی ہیں کہ اگر صرف کشمیر کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو پاکستان دنیا کی سپر پاوربن سکتاہے اوراگر فلسطین کا مسئلہ حل ہوجاتاہے تو دنیا کی مکارترین قوم یہود کوپھر سے یورپ میں انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔اور وہ یہی کسی صورت نہیں چاہتے۔
سعودی عرب میں’رعد الشمال‘ مشقوں میں جنرل راحیل شریف کی شرکت معنی خیز ہے، پوری دنیا میں ان کی دھاک بیٹھ چکی ہے کہ وہ دہشت گردوں کا قلع قمع کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ اگریہ اتحاد عالم اسلام عملی طور پر مضبوط وموثر ہوتاہے تو سعودی عرب، پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کا سدباب بہت جلدی اور دیرپا ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں کوئی دہشت گرد داخل ہوتے وقت کانوں کو ہاتھ لگائے گا کیونکہ ان کا اصل مقابلہ جنرل راحیل شریف کی تربیت یافتہ فوج سے ہو گا۔