تحریر : طارق حسین بٹ اسلام آباد کے لاک ڈائون کو خیر باد کہنا،سپریم کورٹ کی یقین دہانی پر پانامہ لیکس پر عدالتِ عظمی جانا،سیاسی دبائو بڑھانے کی خاطر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنا،تحریکِ التوا اور تحریکِ استحقاق جمع کروانا اس نئی حکمتِ عملی کا شاخشانہ تھا جو پی ٹی آئی نے اپنائی تھی۔ابھی پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا شور کم نہیں ہو پایا تھا کہ آصف علی زرداری نے وطن واپسی کا اعلان کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔عجیب اتفاق ہے کہ پی پی پی اور وپی ٹی آئی پارلیمنٹ میں حکو مت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے یکجا تھیں ،ان کی یہ یکجائی حکومت کیلئے مشکلات کا پیش خیمہ تھالیکن آصف علی زرداری کی ملک واپسی نے پی ٹی آئی سے پی پی پی کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے تاثر کو کمزور کر دیا۔کیا پی پی پی دل و جان سے یہ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے خلاف ایک مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرے اور پی ٹی آئی کو ساتھ لے کر ایک ایسا اتحاد تشکیل دے جو حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی بن جائے؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی پی پی اس وقت انتہائی کمزور پوزیشن میں ہے اور اس کے پاس پی ٹی آئی سے اتحاد کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔پی ٹی آئی بھی اتنی طاقت ور نہیں ہے کہ وہ تنِ تنہا مسلم لیگ (ن) کو شکست دے سکے لہذا دونوں کی باہمی رفاقت ہی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو تخلیل کر سکتی ہے۔پی پی پی کی سیاسی پوزیشن کو واضح کرنے کیلئے چند مثالیں پیش کروں گا تا کہ موضوع مزید واضح ہو جائے ۔،چند ماہ قبل گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میںپی پی پی کی ذلت آمیز شکست پی پی پی کیلئے لمحہِ فکریہ تھی۔
پی پی پی جس نے پانچ سال تک اقتدار کے گھوڑے پر سواری کی یوں اچانک زمین بوس ہو گئی کہ سارے سیاسی پنڈت سکتے میں آگئے ۔پی پی پی کے کچھ اوچھے ترجمانوں نے جس طرح اس شکست میں مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت کو بنیاد بنایا اس سے ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کی تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔وہ آخری وقت تک پارٹی قائد کو باور کرواتے رہتے ہیں کہ آپ بہت مقبول ہیں ۔ انتخابات میں شکست کمزور امیدواروں اور وفاقی حکومت کی مداخلت،ریاستی مشینری اور ترقیاتی فنڈز کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ہے وگرنہ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی آپ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔وہ بات کو گھماتے رہیں گئے لیکن اس بات کی طرف کبھی نہیں آئیں گے کہ پارٹی میں تبدیلی نا گزیر ہو چکی ہے۔پی پی پی ایک جارحانہ انداز رکھنے والی سیاسی جماعت ہے اور جیالے اسی انداز کو پسند کرتے ہیں لیکن پی پی پی کی جو جو قیادت مسلم لیگ (ن) کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگے تھی اور ہر معاملہ میں مسلم لیگ (ن) کو سہارا دینے کا سوچے گی تو پی پی پی کے جیالے اسے کب قبول کریں گئے۔پی پی پی کے جیالوں کی امیدیں بھٹو خاندان سے وابستہ ہیں لہذا وہ بلاول بھٹو کو پارٹی قائد کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
فریال تالپور اور زرداری خاندان کے دوسرے افراد پی پی پی کے کلچر کو سمجھنے سے عاری ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس جماعت کی بنیادوں میں بھٹو خاندان کا لہو ہے لہذا اسی خا ندان کا کوئی فرد اس جماعت کی قیادت کر سکتا ہے اور اس کیلئے جیالوں کی نظریں بلاول بھٹو پر مرکوز ہیں۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں چند نشستیں جیتنا پی پی پی جیسی جماعت کیلئے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے ۔اسے تو پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر اگلی حکومت کی امیدیں رکھنی چائیں تھیں لیکن اس کی تو پوری نیا ہی ڈوب گئی۔پی پی پی کو اپنی اس ہار کا تجزیہ کرنا چائیے اور سوچنا چائیے کہ پورے ملک میں پی پی پی ہر جگہ کیوں شکست سے دوچار ہو رہی ہے؟خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخا بات میں بھی پی پی پی کا صفایا ہو گیا۔کیا وہاں پر بھی وفاقی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟وہاں تو پی پی پی نے عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ اتحاد کیا ہوا تھا۔فرض کریں کہ اگر یہ اتحاد نہ ہوا ہوتا تو پھر پی پی پی کی کیا درگت بنتی؟۔
PPP
ایک زمانہ تھا کہ پی پی پی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت تھی لیکن اب وہاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔ملتان کے ضمنی انتخاب کے بعد پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہمیں فی الحال خاموش ہو جانا چائیے جس سے پی ٹی آئی نے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ اس نے اپوزیشن کے سارے ووٹ اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کر دئے کیونکہ اور تو کوئی قابلِ ذکر جماعت موجود ہی نہیں تھی۔ پی پی پی نے منڈی بہائولدین کے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا تو اس کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوا ۔اس ضمنی انتخاب میں پی پی پی تیسرے نمبر پر آئی ہے جبکہ یہ نشست مسلم لیگ (ن) نے ایک بڑے مارجن کے ساتھ جیت لی ۔پی پی پی کا جیالا مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دیتا کیونکہ اس کے ساتھ اس کی مخاصمت کی داستان بڑی پرانی ہے ۔وہ جنرل ضیا الحق کے منہ بولے بیٹے کو اپنا ووٹ دینے کیلئے کبھی بھی آمادہ نہیں ہو سکتا لہذا اس کاووٹ، ہمدردی اور جذبہ مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعت کے پلڑے میں پڑ جاتا ہے۔منڈی بہائولدین میں اگر پی پی پی حصہ نہ لیتی توعین ممکن تھا پی ٹی آئی یہ سیٹ جیت جاتی لیکن پی پی پی کا امیدوار میدان میں اترنے سے مسلم لیگ (ن) بہت تگڑی ہو گئی کیونکہ اپوزیشن کے ووٹ تقسیم ہو گئے ۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کی مقبول جماعت ہے اور تنہا پی ٹی آئی اسے شکست دینے کی طاقت نہیں رکھتی۔اسے اگر پنجاب پر قبضہ کرنا ہے تو پھر اسے پی پی پی کی جانب دست تعاون بڑھانا ہو گا۔
یہ سچ ہے کہ عمران خان پی پی پی کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود سیاست میں انہونیاں ہو تی رہتی ہیں۔کسی نے یہ کب سوچا تھا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) جنرل پرویز مشرف کے خلاف یکجا ہو جائیں گی اور جنرل پرویز مشرف کا مضبوط اقتدار ان دونوں کی مفاہمت سے ڈھانوا ڈول ہو جائیگا۔جب ساری راہیں مسدود کر دی جائیں تو پھر سیا ست اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے اور یہی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے کیا تھا کیونکہ اس کے بغیر ان کی بقا ممکن نہیں تھی۔ ان کے پاس ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ان کی یہ چال کامیاب رہی اور جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے بڑی ذلت و رسوائی سے رخصت ہونا پڑا۔ خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت اللعلمائے اسلام کا اتحاد بھی اس کی مثال ہے کہ کیسے مختلف خیالات کی جماعتیں باہمی اتحاد میں چلی جاتی ہیں۔پاکستان قومی اتحاد اس کی بہترین مثال ہے جہاں پر ذولفقار علی بھٹو کے خلاف ملک کی نو جماعتیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہو گئیں حالانکہ ان میں کوئی قدرِ مشترک نہیں تھی۔میاں برادران نے پنجاب میں ایک بڑی اننگز کھیل لی ہے لہذا اب اس کا خاتمہ ضروری ہے۔تبدیلی ناگزیر ہے اور اس کیلئے پی پی پی اورپی ٹی آئی کانتخابی اتحاد ہی یہ معجزہ سر انجام دے سکتا ہے۔
عمران خان کو پی پی پی سے کوئی ذااتی پر خاش نہیں ہے ان کی تنقید کاسارا زور آصف علی زرداری پر ہے لہذا اگر بلاول بھٹو زرداری اگلے انتخابات میں پارٹی کی قیادت کے ساتھ سامنے آ گئے تو پھر ان دونوں جماعتوں میں انڈر سٹینڈنگ اور مفاہمت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ میری یہ پشین گوئی قبل از وقت ہو لیکن اگر سیاست کرنی ہے تو پھر اس طرح کے سخت فیصلے تو کرنے ہوں گئے۔ پی پی پی اپوزیشن کی جماعت ہے اور پی ٹی آئی بھی اپوزیشن کی جماعت ہے لہذا اپوزیشن کا حکومت کے خلاف اتحاد ہمیشہ بنتا آیا ہے لہذا اگر یہ دونوں جماعتیں حکومت کے خلاف کسی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائیں تو مسلم لیگ(ن) کو پنجاب میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔اگر ان دونوں جماعتوں نے ذاتیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بڑے فیصلے نہ کئے تو پھر موجودہ صورتِ حال ایسے ہی چلتی رہیگی جس سے ملک و قوم کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی ترقی پسند جماعتیں ہیں،دونوں مڈل کلاس اور غریب عوام کی کی نمائندگی کرتی ہیںلہذا ان کے اندر قریب آنے کے سارے امکانات موجود ہیں۔کیا ایسا ہو جائیگا ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔،۔