تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کریم کی بے پناہ حمد و ثناء اور وجہ تخلیق کائنات تاجدار انبیاء امام الانبیاء ختم الرسل مختار کل جناب حضرت محمد مصطفی کریم آقا کی ذات پر درودوسلام کے کروڑہا بار نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے آج جس حساس ترین موضوع پر چند سطور ترتیب دی ہیں ان کا سبب میرے گرد سادہ لوح ان پڑھ مگر پختہ ایمان والے لوگوں کا وہ سوال ہے جو مجھ سے ٹیلی فون کال یا میرے دفتر آکر بارہا پوچھا گیا میرے سامنے مختلف انداز و الفاظ میں ایک ہی سوال رکھا گیا کہ اب مولویوں کو کیا ہوگیا ہے وہ کس بات پر دھرنا دے کر ملکی ماحول کو خراب کیے بیٹھے ہیں پورے ملک کا نظام خراب ہورہا ہے اسی طرز کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے میں نے یہ مضمون ترتیب دیا ہے قارئین کی آراء کا انتظار رہے گا۔
اللہ کریم نے سب سے قبل جسے تخلیق فرمایا وہ میرے اور آپکے آقا ۖکا نور ہی ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو تخلیق فرمایا پھر میرے نور سے دنیا کو تخلیق کیا ابھی تخلیق آدم نہیں ہوئی اور میرے آقا کے نور کو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے تخلیق فرما کر نبی ہونے محبوب ہونے کا امام الانبیاء ہونے کا شرف عطا فرما دیا قرآن کریم جو کلام الہیہ ہے اور جس کے دیباچہ میں اللہ نے کھلم کھلا فرمایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ۔اسی قرآن میں اللہ نے اپنے محبوب کی نبوت اور امامت کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ۔۔اور جب اللہ نے نبیوں سے میثاق کیا معائدہ کیا کہ تمہیں نبوت و رسالت دیکر دنیا میں بھیجوں لوگ تمہارا کلمہ پڑھتے ہوں اور زمین پر تمھاری حکومت بھی قائم ہوایسے میں اگر میرا محبوب محمد ۖ آجائے تو کیا کرو گے؟
انبیاء کرام کی ارواح مقدسہ نے سوال کیا کہ رب کریم کیا کرنا ہے ؟ تو اللہ کریم نے حکم ارشاد فرما دیا کہ جب وہ آجائے تو تم نبوت کی مسند خالی کردینا اور اس کا کلمہ پڑھ کر اسکی معاونت کرنا یاد رکھنا اگرایسا نہ کیا تو فاسقین گردانے جائو گے ۔۔نبوت بھی گئی رسالت بھی اعمال بھی غارت اللہ کا وہ نبی جسے مبعوث فرمانے سے پہلے اللہ نے میثاق النبیین فرمایا آج میثاق جمہوریت کے تحت باری باری عوام کو بیوقوف بنانے والے اسلامی علوم سے جاہل ارباب اختیار اس نبی کی شان میں گستاخی کرنے کی راہ ہموار کررہے ہیں جن کی آمد کے اعلان کے لیے اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب نبی بھیجے افسوس ہوتا ہے اب ارض وطن کے نام کو اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھتے ہوئے جہاں لیڈر علماء کرام کو جاہل اور خود کو عالم ثابت کرتے ہیں جہاں جمہوریت چند گھروں کی باندی بن کر رہ گئی ہے طبقہ اشرافیہ نے سارے نظام کو جکڑ رکھا ہے اور اسلام کے ٹھیکیداروں کو الیکشن کے وقت دعا،کلمہ قرآن پاک کی کوئی آیئة مبارکہ جج کے سامنے سنانی نہیں آتی آج وہ قانون میں ایسی ترامیم کی جرات کرتے ہیں جو خالصتا اسلامی ہیں اور ایمان کی بنیاد ہیں۔
اگر میں یہ بیان کرنا شروع کردوں کہ وہ ایسا کس کے اشارے پہ کررہے ہیں تو ایک الگ بحث چھڑ جائیگی مگر اصل بات پہ ساری توجہ رہے کہ سرکار کی ختم نبوت کا معاملہ ایسا ہے جس پر ہر مسلمان اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہے مسلمانوں کے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ حکومت میں جب ایک ناہنجار نے نبوت کا دعویٰ کیا تو جناب نے اس سے کھلم کھلا جنگ لڑی اور اسلام کی ساری وہ لڑائیاں جو کفر سے ہوئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ کی تعداد اس جھوٹے نبی سے لڑی جانے والی جنگ سے بہت قلیل ہے مگر افسوس کہ آج ہم دین کی روح سے دور ہیں اور ہمیں اپنے عقائد کے متعلق بھی پورا علم نہیں انگریزی تعلیم کو ہم نے روزگار کے حصول کے لیے سیکھنے کے بجائے اسے مکمل زندگی سمجھ لیا اور اقبال کے تصور والے پاکستان کے بجائے ایک الگ ملک بنا کر رکھ دیا جہاں دو وقت کی روٹی کا آٹا چوری کرنے والے چور کو سالہا سال جیل اور ملکی وسائل کو بے دردی لوٹنے والے ڈاکو کو لیڈر بنا دیا جاتا ہے۔
جہاں انصاف کے حصول میں خود کشیاں اور چائلڈ لیبر پروٹیکشن کے جلسہ میں بچے کوڑے کے ڈھیروں سے روٹی تلاش کرتے ہوں جہاں دین کو رسم و روج کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور علماء حق روپوش ہو جائیں جہاں بوڑھی ماں کی دوائیاں لینے کے لیے کسی کلی کو اپنا آپ بیچنا پڑے اور مسیحا کی کرسی پر بیٹھا قصاب صرف نوٹ بنانے کے چکر میں ہو یہ سب کچھ برداشت کرکے بھی جو قوم ابھی تک انہیں لیڈروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہو تو کیا سمجھتے ہو کہ وہ نبی ۖ کے ناموس پر بھی خاموش رہ جائیگی ہر گز نہیں ایک علم دین ترکھان کو غازی علم الدین شہید بن کرقیامت تک امر ہونے میں کتنے دن لگتے ہیں یہ بات ہمارے حکمران تاریخ میں پڑھ لیں والسلام۔