لندن: سائنسدانوں نے کائنات میں تاریک مادے کا اب تک سب سے بڑا نقشہ تیار کر لیا، ماہرینِ کونیات (کاسمولوجسٹ) کے مطابق کائنات میں مادے کی 80 فیصد مقدار تاریک مادے (ڈارک میٹر) پر مشتمل ہے جو عام مادے سے قدرے مختلف ہے اور اس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔
زمان ومکاں کی خمیدگی سے ماہرین نے بعید ترین کہکشاؤں سے زمین تک پہنچنے والی روشنی کو دیکھتے ہوئے یہ نقشہ بنایا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خلا میں بھاری اجسام یا مادہ روشنی کی شعاعوں کو خمیدہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے روشنی کی راہ میں ٹیڑھ اور رکاوٹ کی بنا پر یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ روشنی کی راہ میں کوئی ایسا مادہ موجود ہے جو اس پر اثرانداز ہورہا ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ان دیکھا مادہ پیش منظر میں بھی موجود ہو سکتا ہے۔
اس ضمن میں ڈارک انرجی سروے (ڈی ای ایس) نے ایک دو نہیں بلکہ قریب اور دور کی دس کروڑ کہکشاؤں کا مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے جائزہ لیا ہے۔ ماہرین نے ان کہکشاؤں کو دیکھنے کے عمل میں ان کی تبدیل شدہ شکل اور کھنچاؤ کا جائزہ بھی لیا ہے۔ اوپر کی تصویر میں آپ جنوبی نصف کرے میں اس تمام مادے کو دیکھ سکتے ہیں جو دکھائی دینے والی کہکشاؤں کے پیش منظر یعنی آگے کی جانب موجود ہے اور مجموعی طور پر یہ جنوبی نصف کرے کے آسمان کا 25 فیصد حصہ بناتا ہے۔
نائل نے کہا کہ اس ٹیم میں یونیورسٹی کالج لندن کے نائل جیفری بھی شامل ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کائنات میں سیاہ مادے کا راج ہے اور ہم یہ جان کر حیران رہ گئے ہی کہ آخر یہ پوشیدہ مادہ کتنے وسیع رقبے پر موجود ہے۔ ’ہمارے نقشے میں اکثر مقامات پر تاریک مادہ نمایاں ہے۔ عین یہی شکل ہم نظرآنے والے مادے میں بھی دیکھتے ہیں یعنی جالوں کی بڑے گچھے ہیں جن میں بڑی بڑی خالی جگہیں ہیں،‘۔
ان کے مطابق کائناتی پیمانے پر تاریک مادے کو دیکھنے سے ہم کائنات کے بنیادی سوالات کے جوابات معلوم کرسکتے ہیں۔ ماہرینِ فلکیات ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ کائنات میں ہمیں دکھائی دینے والے مادے سے بہت زیادہ مادہ موجود ۔ ان میں تاریک توانائی اور تاریک مادہ ہمیشہ سے ہی پراسرار رہا ہے لیکن روشن کہکشاؤں کے رویوں سے ان کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر کہکشاں ایک گچھے کی صورت میں ملی جلی دکھائی دیتی ہیں جو اس مجموعے میں قدرے تیزی سے حرکت کررہی ہیں۔
اس طرح رات کے وقت ہم صرف کہکشاؤں کی روشنی ہی دیکھ سکتے ہیں لیکن اطراف میں پھیلا تاریک اور ان دیکھا مادہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اگر دوردراز کہکشاں یا ستارے کی روشنی ہم تک آرہی ہے اور وہ ترچھی ہورہی ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے درمیان کوئی نادیدہ مادہ موجود ہے اور یہ عمل ’ثقلی عدسہ‘ یا گریویٹی لینسنگ کہلاتا ہے۔
ماہرین نے تین سال تاریک مادے کی تلاش اور نقشہ سازی کے بعد کہا ہے کہ یہ کائنات میں عین اسی طرح بکھرا ہوا ہے جنہیں کائنات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے جو آج بھی استعمال ہو رہا ہے۔