مبلغ اسلام کے بیان کردہ اس پہلو کی مزید توضیح انھیں کے ایک اصول سے کرتے ہیں، فرماتے ہیں:”اب ہر عقل مند کا فرض ہے کہ وہ اپنی عقل کو بہ روئے کار لائے اور سوچے کہ کیا اسے انسان کے گھڑے ہوئے نا مکمل نظریات کو اختیار کرنا ہے یا ہر چیز کے جاننے والے خدا کی طرف سے آئی ہوئی مکمل راہِ ہدایت کو”وجود باری سے متعلق عقلاے زمانہ کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی فرماتے ہیں: ”اسے معمولی عقل سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، ہر سچا اور غیر متعصبانہ فلسفہ اور سائنسی نظریہ بھی اس کا مؤید ہے۔ (یہ طے ہو چکا تو) منطقی جرح وقدح کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ وہ (باعث ہستی) خلاق اکبر، ہمہ داں اور (اپنے علم و قدرت سے) ہر جگہ موجود ہے۔
منکرین عقل سے بے بہرہ تھے اسی لیے یہ بات جو آسان بھی ہے اور مشاہداتی بھی ان کی سمجھ میں نہ آئی اور اسلام کی صداقت کا دلائل دیکھتے ہوئے بھی انکار کر بیٹھے، مبلغ اسلام فرماتے ہیں: ”حیات انسانی میں اس اعتقاد کو (وجود باری تعالیٰ کے عقیدے کو) عالم گیر حیثیت حاصل رہی ہے اس سے فقط انہی افرادنے انکار کیا ہے جن کے جذباتی تعصب نے انھیں عقل و خرد سے بے نیاز ہو کر سوچنے پر آمادہ کیا۔” اسلام کی صداقت و حقانیت نے جب دلوں کی دنیا کو مسخر کر لیا تو وہ مذاہب جن کی بنیاد اوہام پر تھی اور وہ انسانی عقل کی اختراع تھے تلملا اٹھے۔
جن آسمانی مذاہب کی شکلیں ان کے ماننے والوں نے بگاڑ کر رکھ دی تھیں انھیں بھی اسلام کی سچائی اور صداقت سے بیر تھا اور وہ حسد و بغض کے جذبات سے مغلوب۔ اسلام کے مقابل ”شر” کا یہ عمل سامنے آیا کہ نئے نئے افکار و نظریات وجود میں لائے گئے۔ تمدنی و تہذیبی، ثقافتی و نظریاتی، سیاسی و اقتصادی ہرطرح کے حملے کیے گئے۔ لیکن یہ فطری بات ہے کہ حق و صداقت کو دوام و استقرار ہے اور باطل کو ہزیمت و زوال۔فطرت سے انحراف ہی انسانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اسلام سے عداوت و بغض رکھنے والے افکار و نظریات کی بنیاد چوں کہ انسانوں کے ہاتھوں بنائے ہوئے اصولوں پر تھی اس لیے ان کی ہر فکر نے انتشار و فسادکی فضا استوار کی اور تخریب و تباہی کا سامان ہوا۔ ادیان باطلہ جور و ستم کی راہ پر گام زن تھے۔ انسانی سہاگ لٹ کر رہ گیا تھا، عصمتیں تار تار تھیں، دہشت گردی کا بازار گرم تھا ایسے ماحول میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوتی ہے، اور دین فطرت کی ضیا پھیلتی ہے، انسانیت کی زلف برہم سنورتی ہے، سچائی راہ پاتی ہے، ہدایت و صداقت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔
Knowledge
جریدة عالم پر اسلام کے اثرات جیسے جیسے بڑھتے گئے ادیان باطلہ میں اضطراب بڑھتا گیا اور دین فطرت سے متعلق پروپے گنڈا کیا گیا کہ اسلام ایک عسکری دین ہے اور علم و فن سے اس کا کوئی رشتہ و تعلق نہیں، اس کی اشاعت بہ زور شمشیر و سناں کی گئی ہے۔ اس فکر غلط کے پرچار میں مغرب میں وجود پانے والے طبقہ مستشرقین کا زیادہ حصہ رہا، گرچہ جنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ بھی کیا اور سیرت کا تجزیہ کیا ان میں اکثر نے اعتراف کیا کہ اسلام ایک الہامی دین ہے اور یہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔عالمی مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی لکھتے ہیں: ”حصول علم کی اس تمام جدوجہد کے باوجود انسان صرف جزوی طور پر ہی کسی ایسی حقیقت کو پا سکتا ہے جس کا انکشاف حال میں ہو رہا ہے یا ماضی میں ہو چکا ہے۔ مستقبل کے بارے میں وہ بالکل بے خبر ہے۔
وہ استقرائی طریقے سے نتیجہ نکالنا چاہتا ہے مگر اس نتیجے پر خود اسے مکمل یقین نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں علم ہیئت سے بھی مدد لینے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود۔ ماضی، حال اور مستقبل کا جامع اور یقینی علم اس کے بس سے باہر ہے۔”مادی دنیا کے مشاہدے سے بہ آسانی روح کی قدر کا اندازاہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان مستقبل کا حتمی علم نہیں رکھتا۔ اس لیے انسانی فکر ٹھوس رہ نمائی نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ ان سب کی بنیاد مادیت پر ہے روحانیت پر نہیں، مبلغ اسلام فرماتے ہیں:”انسان (ذہنی) سکون اور (قلبی) چین کے حصول کی خاطر لگا تار جدوجہد کرتا تو ہے مگر صرف مادیات میں، اسی لیے ناکام رہتا ہے کسی مادی سمت سے (اپنی جستجو کا) آغاز کر کے تھوڑی بہت کام یابی حاصل کر بھی لیتا ہے مگر جب اسے اپنے انتہائی مقصود کے آئینے میں دیکھتا ہے۔
تو وہ اسے دور ہی نظر آتا ہے۔ مال و دولت ، صحت و تن درستی اور شان دار عائلی زندگی بھی اسے وہ ذہنی و روحانی سکون مہیا نہیں کر سکتی جس کے ہم سب تہ دل سے متمنی ہیں، یہ چیزیں تو ضمنی عناصر کا کام ہی دے سکتی ہیں اور وہ بھی کب؟ جب مقصود کا صحیح احساس ہو۔” مشاہدے سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے: ”یہ چیز مذہبیت میں دست یاب ہو سکتی ہے جس سے روحانی اور اخلاقی دنیا کے نئے نئے افق سامنے آتے ہیں۔ مذہب ہی میں اس کی جستجو ممکن ہے کیوں کہ وہی اس کا مدعی بھی ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ (حقیقی مسرت فراہم کرنا) مذہب کا اہم مسئلہ ہے۔”یہاں ایک سوال یہ بھی سر ابھارتا ہے کہ مذہب کیا ہے؟
انسانوں نے جن افکار کی تشکیل کی وہ در اصل ازم ہیں جن کی ناکامی ظاہر ہو گئی بہ زعم وہ اسے مذہب کہیں لیکن وہ مذہب نہیں، وہ رہ نمائی سے محروم ہیں۔ مولانا عبدالعلیم میرٹھی فرماتے ہیں:”آج دنیا میں بیسیوں مذاہب، فرقے اور ازم ہیں۔ اگر اس کی تعریف یوں کی جائے کہ مذہب اس نظریے کا نام ہے جو بنیادی زندگی سے متعلق ہے اور جو مجموعی طور پر گویا فلسف? حیات ہے تو مختلف نظریات کی کثیر تعداد کا یہی دعویٰ ہے۔ موجودہ دور میں کئی اسکالرز اور مفکر، معلم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں،اور انھوں نے کوئی نہ کوئی ازم پیش کر کے اسی کو مذہب کا درجہ دے دیاہے۔مارکس ازم، ہٹلر ازم اور گاندھی ازم اسی کی چند مثالیں ہیں جب ہم سنجیدگی سے ان ازموں پر غور کرتے ہیں توپہلی چیز جو ہمیں کھٹکتی ہے یہ ہے۔
وہ سب انسانی دماغوں کی پیداوار ہیں، کتنے ہی ذہنی ارتقا سے آراستہ کیوں نہ ہوں مگر ہیں تو انسانی فکر کا نتیجہ…… انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی اہلیت، علم اور زاوی? نگا ہ محدود تھا لہٰذا نہ تو ان کا علم یقینی ہو سکتا ہے اور نہ وہ فیصلے ہی جو انھوں نے صادر کیے۔ چناں چہ اس صورت حال میں ان ازموں اور ان کے معلموں پر ابدی نجات و فلاح اور حقیقی مسرت کے حصول کے لیے کیوں کر اعتماد کیا جا سکتاہے۔” (اس کے بعد ان کی فطری خامی کی طرف اس طرح اشارہ کرتے ہیں۔)مخلوق کا مشاہدہ خالق کی سمت رہ نمائی کرتا ہے۔ مبلغ اسلام فرماتے ہیں: ”جب ہم اپنے ارد گرد (ایک وسیع) کائنات، ستاروں سے بھر پور آسمان اوپر، گونا گوں مخلوق نیچے دیکھتے ہیں اور جا بجا ایک (حسین) ترتیب اور (متوازن) نمونے کا مشاہدہ کرتے ہیں توہم مجبوراً اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یقینا کسی نہ کسی مصور و صانع اور خالق کا ہونا ضروری ہے۔
Universe
جسے بجا طور پر کائنات کا موجد عظیم باعث اول کہا جا سکے۔ عقل اسے کیوں کر تسلیم کر سکتی ہے کہ یہ وسیع کائناتی نظام کسی بنانے والے کے بغیر ہی ظہور پذیر ہو گیا ہو۔ (بہ الفاظ دیگر) مخلوق خود ہی اپنے خالق کی نشان دہی کر رہی ہے۔” مبلغ اسلام کے اس نکتے پر قرآن مقدس سے ایک دلیل دینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں، جس میں نظام کائنات میں غور و خوض کی تعلیم دے کر خالق حقیقی کی سمت رہ نمائی کی گئی ہے اور دعوت فکر بھی ہے:’بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اوروہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کاباندھا ہے ان سب میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاں۔ہیں۔”(سورةالبقرة:٤٦١/کنزالایمان)