تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشدوہدایت کے لئے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم وپیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ¿ و مرسلین کو مبعوث فرمایاہرنبی و رسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہرین لے کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کُل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں پیارے محمد مصطفی ﷺ کو مبعُوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رُشدوہدایت اور احیا ¿دین و ملت کے لئے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ” ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیداہوگا“(مشکوٰةشریف)نیز فرمایاکہ ” اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے“ (ابودا ¿ود) حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ” عملائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں“ (مشکوٰة شریف) نیزفرمایاکہ ” چالیس ابدال (اولیا ¿) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا(مشکوةشریف) آپ ﷺ نے فرمایاکہ ” علما ¿ کی زندگی کے لئے مچھلیاں دعا کرتی ہیں“ (مشکوٰةشریف) نیزفرمایاکہ ” میری اُمت میں ہمیشہ تین سو اُولیا ¿ حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے قدام پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے“ (مرقاةملاعلی قاری)۔
علما ¿ حق فرماتے ہیں کہ” اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا ¿ رحمت عالم ﷺ تقسیم فرمانے والے اور اُولیا ¿ و علما ¿ اِس کا ذریعہ ہیں “اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصففویہ کے سامنے علما ¿ و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اُصول یہ پیش کردیاہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم ﷺ کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اُولیا ¿ اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اُولیا ¿ اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیا ¿ اتقیا ¿اور دیگر اُولیا ¿ بھی شامل ہیں اُولیا ¿ کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیںگے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم ؓ کو اُولیا ¿ کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور نہیں یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم ؓ کو جب ہم مقامِ ولیوں کا تاجدار کہتے یں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرناچاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطافرماتا ہے اُن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث اعظم،غوث الثقلین، غیوث الکونین، امام الطرفین، امام النقےٰ،رئیس الاتقیا ¿، تاج الاصفیا ¿، قطبِ ربانی، شہبازلامکانی، محی الملت والدین ، فخرشریعت وطریقت ، ناصرسُنت، عماد حقیقت، قامع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، مقتدا ¿ الخلائق، قطب الاقطاب، غوث الاغوث وغیرہم القابات تاجدارِ غوث صمدانی ، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادتِ پاک وطن مبارک گیلا جیسے گیلان بھی کہتے ہیں عرب کے لوگ اِسی کو جیل اور جیلان بھی کہتے ہیں یہ طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے جو ملک عجم میں واقع ہے اِسی علاقے میں نیف نام کے ایک قصبہ میں معتبر روایتوں کے ذریعہ پتہ چلتاہے کہ (آپ حضرت غوث اعظم) یکم رمضان المبارک جمعہ کیدن سنہ 470ہ مطابق 1075سنہ ¿ میںہوئی یہ علاقہ بغداد مُقدس سے سات میل کی دوری پرہے بغداد مُقدس اور مَدائن کے قریب بھی جیل یا گیل نام کے دوقصبے پائے جاتے ہیں لیکن اِن دونوں قصبوں کو حضرت غوث اعظم کا مولاباور کرنادرست نہیں کیونکہ یہ ملک عراق سے متعلق ہیںاور حضرت غوث اعظم کا عجمی ہونا متحقق ہے امام حافظ ابنِ کثیر و مشقی المتوفی774سنہ ہ میں اپنی تصنیف البدایہ و الہنایہ میں حضرت غوث اعظم کا سنہ ولادت470سنہ ھ لکھتے ہیں اور امام یافعیٰ المتوفی 768سنہ ھ اپنی تصنیف مراة الجنان و عبرة الیقان میں لکھتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم سے جب کسی نے آپ کے سال ولادت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیامجھ کو صحیح طورپر یادنہیں البتہ! اتنا ضرور جانتاہوں کہ جس سال میں بغداد آیاتھا اِسی سال شیخ ابوامحمد رزق اللہ ابنِ عبدالوباب تمیمی کا وصال ہوااور یہ 488سنہ ھ تھا اِس وقت میری عمر18سال تھی اِس حساب سے آپ کاسنہ ھ ولادت 470سنہ ھ ہوااِس طرح جملہ سوانح نگاروں کے بیانات زیادہ ترنفحات ہی سے ماخوذ ہیں اِس وجہ سے عام لوگوں کی رائے یہی ہوگئی کہ غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی حضرت غوث اعظم کا سنہ ولادت 470سنہ ھ ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اُم الخیر بیان فرماتی ہیںکہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان بھر دن میں قطعی دودھ نہیں پیتے تھے ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی رویت نہ ہوسکی لوگ تردوّمیں تھے لیکن اِس مادر ذادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیابالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے ۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتاتھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔خواہ کتنی ہی دودہ پلانےکی کوشش کی جاتی یعنیٰ رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکارغوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبہ ¿ فلک وقار کو چھوسکتا یا اِس کااندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میںجب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتاتو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہوولعب سے بازرہو۔جِسے سُن کر میں رُک جایاکرتاتھا اور اپنے گردوپیش جو نظرڈالتاتومجھے کوئی آوازدینے والا نہ دِکھائی دیتاتھاجس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتیاور میں جلدی سے بھاگتاہواگھرآتااور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتاتھا۔
اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُناکرتاہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکرکے مجھے متنبہ کردیتی ہے کہ تم کو اِس لئے نہیں پیداکیاہے کہ تم سُویاکروآپ حضرت غوث اعظم فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھابتقاضائے طفلی ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا عبدالقادر تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہومفامیںنے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اُوپرایک ہیبت سی طاری ہوگئی مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدناشیخ ابوصالح جن کا لقب” جنگی دوست “ ہے اِس وجہ سے ”قلائدالجواہر“میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہادفرماتے تھے اور نفس کشی کوتزکیہ ¿ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ اُنہوںنے آپ کورسم بسم اللہ خوانی ادائیگی اور مکتب یں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اُستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اُستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم ہ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18بارے زبانی پڑہ ڈالے اُستاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا….؟اور کیسے پڑھا….؟تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر وردکیاکرتی تھیں جب میںشکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سُنتے سُنتے مجھے بھی یاد ہوگئے تھے (دیکھئے یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کرچکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اورپڑھ رہی ہوتی ہے تو اُس کااثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑرہاہوتاہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21ویںصدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکاکے سائنسدان اپنی تحقیقوںسے یہ بتانتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پرپڑتاہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے ۔جبکہ حضور غوث اعظم نے صدیوں قبل اِسکا عملی ثبوت دنیاکے سامنے خود پیش کردیاتھا اِس سے ہم اُمت مسلمہ کو فخرہوناچاہئے کہ موجودہ دنیاکی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہرنہیں ہوسکتی)۔
Holy Quran
اور یوں آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طورپر قرآن عظیم ختم کیااور چند دوسری دینی کتابیں پڑہ ڈالیںتھیںحضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے سرکارغوث اعطم نے528سنہ ھ میںدرس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے ” غوث اعظم ہونے پر تمام اُمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ”کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں ثفات سے منقول ہیں(نزپتہ الخاطر الفاطر)۔خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں مبتلاہوجاتے ہیں مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظرآتاہے مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیںکہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغدادمیں آپ کی مجالس ووعظ میں ستر، ستر(70,70)ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسدہونے لگاکہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کرگیاہے۔
چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میںعلم کے سمند ر اورحدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس ووعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سُنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ آپ ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیںپھر بلند آواز سے کلمہ ¿ طیبہ کا نعرہ بلندفرمایاتو ساری مجلس میں ایک جوش و کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے(بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی سویلہ (یعنی ساونڈ سسٹم کے بغیر) کے ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانااور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرناآپ کی ایسی کرامت ہے کو روزانہ ظاہرہوتی رہتی تھی۔
سیدناعوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اُولیا ¿ وصلحا ¿ بھی موجودتھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعدادموجودتھی)دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایاکہ (قَدَمیِ ھٰذِہِ علی رقبةکُل ولی اللہ) ترجمہ:-میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے“تو مجلس میں موجود تمام اُولیا ¿ نے اپنی گردنوں کو جھکادیااور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اُولیا ¿ نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سُنااور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری نے گردن خم کرتے ہوئے کہاکہ” آقا آپ کا قدم میری گرن پر بھی اور میرے سرپربھی“(اخبار الاخیار، شمائم امدادیہ، سفینہ اولیا ¿، قلائدالجواہرِ نزہتہ الخاطر افاطر، فتاویٰ افریقہ کرامات غوثیہ اعلی حضرت) بیشک !حضورغوث اعظم جیلانی پیر کامل اور مادر ذادولی تھے امام حافظ ابن کثیرنے البدایہ والہنایہ میاور حضرت امام یافعی نے مرا ¿ة الجنان میں آپ ؓ کے وصال کے سلسلے میں صرف سال وصال کا تذکرہ کیاہے جو561سنہ ھ ہے دن یا تاریخ یا مہینہ کا کوئی ذکر نہیں ہے حضرت مولاناعبدالرحمن جامی نے بھی نفحات الانس میں آپ کے وصال کے بیان میں561سنہ ھ کا ہی ذکر کیا ہے ہاں البتہ! آگے چل کر کرامات کے بیان میں سرکار غوث اعظم کے شاہزادے حضرت شیخ عبدالوہاب کا قول نقل فرمایاہےکہ جس سے واضح ہوتاہے کہ ماہِ ریبع الآخری میں آپ حضور غوث اعظم کا وصال شریف ہواہے بعض 17ربیع الآخری سنہ 561ھ اور بعض کتابوں میں 11اور12ربیع الآخر بھی لکھاہوملتاہے ۔ آپ حضور غوث اعظم کی حیات مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپؓ کا وصال ہوااور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیاکرتے ہیںاور فیوض و برکات سمٹتے ہیں۔ (بحوالہ:-مجلہ نقیب ملت اگست ۲۰۰۲ کراچی….کتاب سیرتِ غوث اعظم قدس سرہ العزیز لاہور)۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com: