تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی خالقِ کائنات نے اِس خو بصورت رنگوں اور روشنیوں سے بھرپور کائنات کو سجا کر آخر اپنی شاہکار تخلیق حضرت انسان کو اپنا نائب بنا کر اِس جہان رنگ و بو میں بھیجا۔ رب ذوالجلال نے انسان کو فہم و آگہی بصیرت سے روشناس کرا یا اِس کے اندر نیکی و بدی ‘اچھا ئی برائی کا تصور قائم کیا ‘پتھر کے دور سے لے کر آج تک اولاد آدم امن اور سکون کی تلاش میں لگی رہی مختلف’ خوفوں سے جان چھڑانے کی سعی کر تی رہی ‘انسان نیکی پر آئے تو دشمن کو دودھ کا پیالہ پیش کر کے ‘قاتل کو اپنے ہی گھر میں پناہ دے کر فرشتوں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے لیکن جب شر پر آتا ہے تو اپنے ہی بھائی کی آنکھوں میں آگ برساتی سلائیاں پھیر کر اُس سے بینائی چھین لیتا ہے اپنے ہی خو ن سے زمین کو رنگین کر دیتا ہے اگر ہم تاریخ انسانی کا بغور مشاہدہ کر یں تو یہ اٹل حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کا ویری اصل میں انسان ہی رہا ہے اِس میں کو ئی شک نہیں کہ مو سمی طو فان بستیاں اُجا ڑگکئے سیلا بی موجوں نے آبا دیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا زلزلے شہروں کو کھنڈرات میں بدل گئے وبائیں زندگیاں چاٹ گئیں وحشی درندوں نے انسانوں کا قیمہ بنا دیا لیکن انسان نے اپنا تسلط دوسروں پر قائم کر نے کے لیے بے شمار جنگیں لڑیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف ایک عالمی جنگ میں اتنے انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے کہ شمار کر نا مشکل ہے۔
انسان کے اندر دوسروں پر غلبہ پا نے کا مرض اتنا خو فناک ہے کہ دوسروں کو فنا کر نے میں ہی اپنی بقا سمجھتا ہے ‘انسان کسی کو محکوم بنا نے میں ہی اپنی سربلندی کیوں سمجھتا ہے ۔ وہ اپنے عیش کدے کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کے گھروں کو کیوں ما تم کدے بنا تا ہے اپنی بلندی اور دوسروں کو نیچا دکھا نا ایسا زہر ہے جس نے روز اول سے انسانوں کو انسانوں کا قاتل بنا رکھا ہے اگر ہم انسان کی اِس جبلت پر غور کریں تو ایک ہی بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ ہر انسان خو د کو ضرور ی ا ور اہم خیال کر تا ہے اب یہ حقیقت ہے جو شخص خو د کو ضروری سمجھے گا وہ دوسروں کو فالتو اور حقیر جا نے گا ۔اپنی ذات کی نمو کے لیے پھر حضرت انسان دوسرے انسانوں سے متصادم ہو جا تا ہے اپنی ذات کی کشش خدائے بزرگ وبرتر نے اِس بزم جہاں کی رونقیں بڑھا نے کے لیے رکھی ہے تا کہ انسان زندگی سے بو ر نہ ہو جا ئے خا لقِ کائنات نے یہ جذبہ ہر ذی شعور میں ودیعت کر دیا ہے اِسی جذبے کی بدولت بزمِ جہاں کی رونقیں قائم و دائم ہیں مگر نظام ِ قدرت کی خوبصورتی کی داد دینی پڑتی ہے کہ قدرت نے زندگی کی چولی کے ساتھ مو ت کا دامن لگا کر خو د ہی ضروری اور اہم کے غبا رے سے ہو ا نکال دی ہے خو د کو ضروری اور نا گزیر سمجھنے کے زہر نے کرہ ارض کو جہنم بنا رکھا ہے اگر یہاں پر آنے والا ہر انسان اِس حقیقت کو پا ئے کہ جو بھی یہا ں آیا اُس نے اپنا وقت گزار کر آخر کار یہاں سے چلے جانا ہے یہاں پر ہر گز رتا لمحہ فنا کے سمندر میں اترتا جا رہا ہے ہر گزرنے والا سیکنڈ آپ کی زندگی کو کم کر تا جا رہا ہے ہر دن آپ کو موت کے قریب لے کر جا رہا ہے اگر ہر انسان اِس حقیقت کو سمجھ لے تو یہ بزم دنیا کبھی بھی ما تم کدہ نہ رہے اور نہ ہی انسان کے ذہن میں کو ئی فتنہ جنم لے سکے جس نے پو ری دنیا کو عذاب مسلسل میں جھونک رکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی روح قفس انسانی سے آزاد ہو تی ہے انسانی جسم مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جا تا ہے۔
Human Bodies
آپ اِس کو جلا دیں کاٹ دیں ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں جا کر دیکھیں کس طرح انسانی لاشوں کو ٹھنڈے ڈبوں میں بند کر کے نمبر لگا کر رکھ دیا جاتا ہے اب انسان برف کی مانند بے جان گو شت کا ٹکڑا ہے یا پوسٹ مارٹم کے دوران آپ دیکھ لیں کس کس طرح سرجن ڈاکٹر انسانی جسم کی چیڑ پھاڑ کر تے ہیں انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے لیکن یہی انسان جب اِس کے پھیپھڑوں کے اندر ہوا کی چند سانسیں ہو تی ہیں تو یہ خود کو دھرتی کا واحد مالک سمجھتا ہے تا ریخ انسانی میں ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک ظالم جا بر اور طاقت ور پیدا ہوتا رہا ہے لیکن جب وقت گزرنے کے سا تھ سہاتھ رگوں میں دوڑتا گرم خون ٹھنڈا ہو تا ہے تو انسان اپنے غرور بھرے جسم پر قابو بھی نہیں رکھ سکتا جوانی میں جو انسان دوسروں کو چیرنے پھا ڑنے پر تیار رہتا ہے زمین پر اکڑ کر چلتا ہے بڑھا پے میں اپنے ہی جسم پر اختیار نہیں ایسا رعشہ لرزتا انسان اور بیما ریوں کی قیام گا ہ انسان کو اپنی اوقات یا د آجاتی ہے زندہ اور مردہ انسان میں فرق جان کر آپ بھی بہت حیران ہو نگے چند سال پہلے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے اِس پر تجربات کئے لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابرا ہام نے ایک انتہا ئی حساس ترازو بنا یا وہ مر ض الموت میں مبتلا مریضوں کو اُس ترازو پر لٹا تا مریض کے پھیپھڑوں میں مو جو د اکسیجن کا وزن کر تا اور پھر مر نے والے کی مو ت کا انتظا ر کر تا ڈاکٹر اپنی اِس تحقیق میں لگا رہا اُس نے انسانو ں پر سینکڑوں تجربات کئے اور پھر یہ اعلان کیا کہ زندہ اور مر دہ انسان میں فرق صرف 21گرام کا ہے یعنی انسا نی روح 21گرام کی ہے ڈاکٹر صاحب کے بقول انسا نی روح اُس آکسیجن کا نام ہے جو انسان کے پھیپھڑوں میں چھپی ہوتی ہے جب کسی انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو موت اُس پر وار کر تی ہے اب موت پھیپھڑوں کے کونوں کھدروں میں پھنسی ہو ئی 21گرام آکسیجن کو زبردستی با ہر نکال دیتی ہے جیسے ہی یہ 21گرام آکسیجن پھیپھڑوں سے با ہر دھکیل دی جا تی ہے تو انسان کی مو ت کا سفر جا ری ہو جا تا ہے انسانی جسم کے اعضا ٹھنڈے پڑنا شروع ہو جا تے ہیں۔
رگوں میں دوڑتا خو ن جمنا شروع ہو جا تا ہے سارے سیل مر جا تے ہیں اور انسان مو ت کے اندھے غار میں اُتر جا تا ہے اب یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ حضرت انسان کو زندہ رکھنے والی زندگی یا آکسیجن کا وزن صرف 21 گرام ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ زندہ اور مر دہ میں فرق جو 21 گرام ہیں اِس میں ہوا کے ساتھ ساتھ ہما رے ارادوں خوا ہشوں تکبر غرور انا خو دی کا وزن کتنا شامل ہے ہما رے وجود میں شامل غصہ تکبر غرور شہوت لالچ ظلم دوسروں پر غلبہ پا نے کا رجحان دوسروں کو نیست و نا بود کر نے کا زہر ہما رے ڈرامے فراڈ جھوٹ چالاکیاں سازشیں اور قیامت تک زند ہ رہنے کی خوا ہش ، ہم سارا دن انسانوں سے فراڈ اور جھوٹ بو لتے ہیں اپنے ضمیر کا سودا کر تے ہیں دنیا وی جھوٹے خدا ئوں کے تلوے چاٹتے ہیں معاشرے کے با اثر افسروں سیاستدانوں دولت مندوں کے سامنے میراثی بن کر خو شامدوں کے ریکارڈ تو ڑتے ہیں کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اِن 21گراموں میں ہما ری اکٹر تکبر غرور اور خدا کی نا فرمانی کا بو جھ کتنا ہے ہم ما لک کا ئنات کی نا فرما نی 21گراموں کے بل بو تے پر کتنی دیر کر سکتے ہیں جب ہما ری اوقات ہی21گرام ہے تو ہم کتنی دیر تک وقت کے گزرتے لمحوں سے خو د کو بچا سکتے ہیں گردش لیل و نہار کے غبا رسے ہم 21گرام کو کتنی دیر بچا سکتے ہیں۔
ہم کتنی دیر تک خالق کائنات کی نا فرما نی کر سکتے ہیں حیرت ہو تی ہے جب 21 گرام کا انسان خدا بن کر بو لتا ہے دوسروں پر ظلم کر تا ہے دوسروں کا خدا بن کر تقدیر کے فیصلے کر نے کی کو شش کر تا ہے انسان یہ بھو ل جا تا ہے کہ 21گرام محض ایک سانس ہے ایک آخری ہچکی ایک جھٹکا یا چھینک سے ہما رے جسم میں ایک منٹ میں 87کروڑ حرکتیں ظہور پذیر ہو تی ہیں ہما رے دما غ میں اربوں خیالات آتے ہیں ایک لمحے میں ہم ہزاروں منصوبے خیالات بنا تے ہیں 21گرام کو اگلے لمحے کا پتہ نہیں ہوتا 21گرام کی اوقات پانچ ٹشو پیپر ہے ہما ری اوقات 21گرام کا انسان خو دکو کھربوں ٹن وزنی کا ئنا ت کا مالک سمجھنا شروع ہو جا تا ہے وقت اور زمانے کو پائوں کی ٹھوکر سمجھنا شروع ہو جا تا ہے۔
کروڑوں انسانوں کا مالک سمجھنا شرو ع کر دیتا ہے 21گرام کا انسان یہ بھو ل جا تا ہے کہ فرعون جیسا ظالم نیل کے پا نی میں بتاشے کی طرح گھل گیا تو تیری کیا اوقات ہے آج تو مرے گا تو کل 21گرام کا ایک خدا تیری جگہ لے لے گا کسی قبرستان جا کر دیکھ جن کے غبا روں سے 21گرام آکسیجن نکلی تو انہیں منوں مٹی کے نیچے دبا کر واپس آگئے 21گرام کے غبا رے کس جھو ٹی شان کے ساتھ کر ہ ارض پر پھیلے ہو ئے ہیں جیسے ہی کسی غبارے کی ہوا نکلتی ہے تو اُس کو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اُس غبا رے کی جگہ نیا غبا رہ لے لیتا ہے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org