خالق ارض وسما نے جب عرش، آسمان، لوح محفوظ، آفتاب، مہتاب و نجوم، بہشت جہنم، عالم برزخ ،شجر پہاڑ ،سمندر صحرا ،ریگستان دریا جھیلیں، جھرنے ندیا نالے آبشار پھل پھول باغات گلشن، چرند پرند،درندے حیوانات، حشرات ارض سمندر اور سمندری مخلوق، پہاڑی سلسلے،برفستان ،آسمان کی ستاروں سے سجی چادر دیوہیکل درخت،اٹھاراں ہزار جہاں،رنگوں خوشبوں اور لذت سے بھر پور،پھل حسن و جمال محبت،وعشق سے لبریز اِس کائنات کو تخلیق کر چکا تو چاہا کہ اب اپنی ذات کا اظہار کرے اور اپنے محبوب کریم ۖ کا ذکر اور نام کو چار دانگ عالمین میں مشہور کرے تو اپنے ہی نور سے اپنے محبوب ۖ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر ستر ہزارحریر و خوبصورت پردوں میں چھپاکر رکھا اِس واقعہ کو صدیاں بیت گئیں پھر پیشانی عرش پر اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب ۖ کا اسم پاک مرقوم فرمایا پھر فرشتوں اور حوروں کو وجود بخشا،اور پھر وقت گزرتا رہا تمام تخلیق شدہ اشیا اور کائنات کا چپہ چپہ محبوب خدا کی آمد کا منتظر تھا جن کی آمد کے لیے کائنات کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور پھر خالق کائنات نے اپنے دست قدرت سے حضرت آدم کو تخلیق فرمایا اور ان کی خوش قسمتی جبیں اقدس میں اپنے محبوب کے نور کو رکھا۔کیونکہ محبوب اور سب سے اعلی ہستی کو آخر میں بھیجا جاتا ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ محبوب سے زیادہ عرصہ جدا نہیں رہا جا سکتا پھر حضرت آدم سے لے کر حضور نبی کریم ۖ کے اِس عالم رنگ و بو میں تشریف لانے تک نور محمدی ۖ جن عظیم انسانوں میں منتقل ہوتا رہاوہ سب کے سب عالی نسب و مرتب باوقار و ذی احترام تھے اِن میں انبیا و رسل بھی تھے اورغیر نبی بھی تمام کے تمام شرک و الحاد سے کوسوں دور تھے۔
با کردار اور وعفت ماب پاکیزہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ گناہوں سے پاک تھا کیونکہ اللہ تعالی پاک ہے اور وہ پاک لوگوں کو ہی پسند کرتا ہے اِس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نور محمدی ۖ ناپاکی کے قریب بھی گیا ہو محبوب خدا نے خود فرمایا کہ میں نکاح سے ظاہر ہوا ہوں ناجائز طریقے سے ظاہر نہیں ہوا،حضرت آدم سے لیکر اس وقت تک جب کہ میرے والد اور والدہ نے مجھے جنا مجھے زمانہ جاہلیت کی کسی غلط چیز نے نہیں چھوا،علمائے کرام کی یہ رائے ہے کہ حضور نبی کریم ۖ کے تمام آبا و امہات اپنے اعتقاد میں انبیا تمام بندوں سے چنے ہوئے تھے قیامت پر یقین رکھتے تھے اس کی باقی مخلوق سے بہتر ہوتے ہیں اِس لیے ان کو ایسے عناصر سے چنا جاتا ہے جو پاک اور بہترین ہو جو اعلی ہوں اور ہر عیب سے پاک ہوتے ہیں تاکہ لوگ ان کے سامنے سر جھکاسکیں اور غور سے ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کریں۔خدا تعالی اپنے محبوب سے بہت محبت کرتا ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے اے پیارے اگر میں تمھیں پیدا نہ کرتا سارے جہاں کو پیدا نہ کرتا یعنی اگر میری تجھ سے محبت کا اظہار مقصود نہ ہوتا تو میں عرش و فرش کو کبھی وجود نہ بخشتا آپ سے محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے تمام انبیا سے اپنے محبوب کو زیادہ شان اور برگزیدہ بنایا،اللہ رب العزت نے جب تمام ارواح کی محفل سجائی تو تمام ارواح سے اپنی وحدانیت کا وعدہ اور اقرار لیا اور کہا سورعمران کی آیت نمبر 81: اگر تم میرے محبوب ۖ کا زمانہ پا تو دل و جان سے ان کی مدد کرنا اِن پر ایمان لانا، ارشاد گرامی کو تمام ارواح انبیا کرام نے سنا اور قبول کیا اور اطاعت کا وعدہ بھی کیا،اِس جہاںِ رنگ و بو کی تخلیق کے بعد خالق بے نیاز نے جس عظیم ہستی کا لباس بشریت سے نوازا وہ ہمارے باپ حضرت آدم تھے اور پھر جب حضرت آدم نے شجر ممنوعہ میوہ کو چکھا تو حکم ربی کی نافرمانی پر انہیں زمین پر اتار دیا گیا،اور پھرخدا تعالی نے اپنے محبوب کی محبت اور عشق کو بھی آسمانوں سے زمین پراتارا تا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ معطر اور روشن ہو جائے۔
حضرت آدم اس نافرمانی کی وجہ سے بہت شرمندہ اور سوگوار تھے وہ خفت اور نافرمانی کے ازالے کے لیے ہر وقت دعائیں،معافیاں،آہ و بکا گریہ زاری اور توبہ کرتے مگر توبہ کی قبولیت نہیں ہو رہی تھی۔آپ دن رات گریہ زاری میں مصروف تھے اور پھر خدا کو ان پر رحم آیا اور پھر حضرت آدم نے اِس نام کے وسیلے سے دعا کی: اے میرے مالک اے غفور و رحیم تیرے نام کے ساتھ جو تیرے محبوب کا اسم پاک ہے تو اس کے صدقے میری خطا درگزر فرما مجھے معاف فرما دے، اِس نام کے ساتھ دعا مانگتے ہی قبولیت کا لمحہ آیا اور توبہ کا دروازہ کھل گیا یہ رسول کریم ۖ کے مبارک نام اقدس کی رحمت کی پہلی جلوہ گری تھی جس کے وسیلے سے مالک کائنات انسانوں کے گناہ اور خطا ئیں بخشنے لگا،اللہ تعالی فرماتے ہیں اے لوگو یہ کارخانہ عالم خدائے رحمن و رحیم نے صرف اپنے محبوب کی خاطر قائم کیا ہے اگر تم ان کا زمانہ پا تو ان پر ایمان لے آنا،اور ہر دور میں انبیا کرام اللہ کے حضور یوں دعا کرتے تھے اے اللہ تیرے محبوب کی عظمت و تو قیر اور محبت ہماری روح میں رچی بسی ہے ہم سے نبوت لے لے اور ہمیں اپنے محبوب ۖ کا امتی بنا دے۔محبوب ہمیشہ آخر میں آتا ہے اور پھر اس کے آنے کے بعد کسی کے آنے کی ضرورت نہیں رہتی جب تمام انبیا کرام اِس دنیا میں تشریف لا چکے تو آخر میں مالک کائنات نے اپنے محبوب کو بھیجا اور ان کا نام بھی خود ہی رکھا عاشقان محبوب ۖ کہتے ہیں،قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا حساب کتاب تو صرف چار گھنٹوں میں ختم ہو جائے گا باقی تمام وقت رسول اللہ ۖ کی حمد کرنے میں گزرے گا۔
جب خدا تعالی نے اِس جہاں رنگ و بو کو رونق بخشی چاروں طرف عشق و محبت کے چشمے پھوٹنے لگے تو خالق ارض و سما نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: اے کتاب والو! بے شک تمھارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بیشک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سور المائدہ)۔قرآن مجید میں سور ال عمران میں ارشاد گرامی ہے: اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمھارے پاس وہ رسول کہ تمھاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا،فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا ایک دوسرے پر گواہ ہو جا اور میں تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
اللہ تعالی نے اپنی اور اپنے محبوب کی محبت کو کائنات کے گوشے گوشے اور عالمین کی وسعتوں اور پنہائیوں میں پھیلا دیا ہے کائنات کا ذرہ ذرہ اِس نور سے سرشار اور لبریز ہے خالق اپنے محبوب کا اور محبوب اپنے خدا کا ذکر بلند کرتے ہیں یہی محبت و عشق کا جوہر ہے یہی وجہ ہے کہ جو صلو و سلام سردارالانبیا پر بھیجتا ہے وہ اللہ تعالی کا خاص بندہ بن جاتا ہے اور جو رب کریم کا ذکر کرتا ہے وہ حضور کا امتی بن جاتا ہے۔اور پھر روز محشر جب مالک بے نیاز کا جلال اپنے پورے جوبن پر ہوگا انبیا کرام اور اولیا کرام جلال رب سے کانپ رہے ہونگے کسی کو بولنے کی جرات نہ ہوگی تو ایک طرف کالی کملی والے آتے نظر آئیں گے تو نسل انسانی مدد اور بخشش کی التجا کرے گی اور محبوب خدا سجدے میں سر رکھ کر امتی امتی کریں گے اور یا حی یا قیوم یا ذولجلال والاکرام فرمائیں گے اے محبوب سر اٹھا اور جو مانگتا ہے لے جا آج تیری ہر بات مانی جائے گی اور پھر شافع محشر امت کی بخشش کرائیں گے۔