بلاشبہ حضرت انسان خالقِ کائنات کی شاہکار تخلیق ہے جس کو اللہ تعالی نے بے شمار خوبیوں سے نوازا ہے انسان اپنے اپنے وقت میں پردہ جہاں پر نمودار ہو کر اپنی خاص صفتوں کا اظہار کر تاہے انہی خوبیوں میں خو بی ہے جستجو تلاش کھوج جاننا ‘ خدا سے عشق کے بعد کائنات کی ہر چیز سے عشق ہو جاتا ہے جب ہم اولیاء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کر تے ہیں تو اِن میں یہ صفت عام انسانوں کی نسبت زیادہ ہو تی ہے ان کی سیما کی فطرت اِنہیں ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتی اور پھر جہاں جہاں اِن کا روحانی لنگر ہوتا ہے یہ ضرور وہاں جاکر اپنے حصے کا لنگر لیتے ہیں’ حق تعالیٰ جب بابا فرید الدین مسعود گنج شکر پر مہربان ہو ئے تو انہوں نے بھی مرشد کے حکم پر وطن چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں کی سیر کی وہاں کے اولیاء اللہ سے روحانی فیض بھی حاصل کیا’ سیستان میں اہل حق کی صحبتوں سے فیضیاب ہو نے کے بعد نوجوان بابا فرید اب بد خشاں نمودار ہو تے ہیں جہاں پر پہلے سے مشہور بزرگ شیخ عبدالواحد موجود ہو تے ہیں جو اولیا ء کی تاریخ کے شاہسوار بزرگ ذوالنون مصری کے مرید خاص تھے جو آتشِ عشق میں اِس قدر غرق تھے کہ دنیا اور اہل دنیا کو ایک نظر بھی دیکھنا گوارا نہیں کر تے تھے دنیا یہی بے رغبتی انہیں آبادی سے دور جنگل میں لے گئی اور جاکر ایک غار میں مقیم ہو گئے دنیا دار جب بھی دنیاوی ضرورتوں کے تحت آپ کے پاس دعا کے لیے آتے تو آپ پر جلال آواز میں کہتے میں بد شکل بد فطرت دنیا عورت کو تین طلاق دے کر اِس غار میں آبیٹھا ہوں تم پھر بھی اُس دنیا کے لیے میرے پاس دعا کے لیے آتے ہو ‘ میرے پاس وہی آئے جس کو اللہ کی چاہ ہے جو حق تعالیٰ تک رسائی چاہتا ہے دنیاداروں کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
بابا فرید کو بھی پتہ چلا کہ شیخ عبدالواحد دنیاداروں سے دور بھاگتے ہیں انسانوں سے ملاقات نہیں کر تے لیکن بابا فرید تو دنیا کے بجائے حق تعالیٰ کے عشق میں گرفتار تھے اِ س لیے جب جوان بابا فرید نے خدا مست درویش دنیا سے بے زار دنیا کی آبادیوں سے دور غار میں مقیم کے دروازے پر ڈرتے ڈرتے قدم رکھا تو سناٹے اور ویرانی میں پر جلال آواز گونجی اے آتش عشق الٰہی کے پیاسے آکہ تیرے لیے میرے دروازے کب سے کھلے ہیں ‘ بابا فرید لرزتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھے تو عجیب منظر دیکھا کچھ دور ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آیا جس پر کمزوری نے قبضہ کر رکھا تھا ایک ٹانگ کٹی ہو ئی تھی کثافت کی جگہ پیکر لطافت تھا جو آتش عشق میں سلگ رہا تھا بابا فرید آگے بڑھے تو درو دیوار شیخ کی پر جلال آواز سے لرزنے لگے اے فرید رک جا میرے زیادہ قریب نہ آنا جل کر بھسم ہو جائے گا بابا فرید وہیں خا ک پر بیٹھ گئے بولے اے شہنشاہ ِ عشق مُجھ فقیر پیاسے پر بھی تو جہ فرمائیں تو آواز آئی اے آنے والے وقت کے عظیم درویش میں حق تعالیٰ کے عشق میں خاک ہو چکا ہوں میرے پاس خا ک کے علاوہ کچھ بھی نہیں وہی تیری نظر کرتا ہوں بابا فرید پیکر عقیدت بنے آتش ِ عشق کے مسافر کو دیکھ رہے تھے ادب سے بولے اے مہربان بزرگ یہ آتش عشق ہے کیا چیز تو شیخ بولے مجھے دیکھ میں ہجر کی آگ میں راکھ بن چکا ہوں میرے جسم کی کثافت بوند بوند پگھل کر نور میں ڈھل رہی ہے حق تعالیٰ سے ملاقات کے لیے میرا جسم خاک در خاک ہو رہا ہے جیسے ہی خاک ہو گا میں بارگاہ الٰہی میں پہنچ جائوں گا۔
اے فرید میرے جسم پر نظر ڈال عشق کے لیے میری ایک ٹانگ قربانی دے چکی ہے میں عرصہ پہلے دنیا کو طلاق دے چکا ہوں ستر سال سے اِس غار میں پڑا ہوں میں بھی عشق کا دعوے دار تھا کئی سال پہلے ایک خو برو عورت اِس غار میں آئی اُس کے حسن کا لشکارا دیکھ کر میرے دل میں بھی اُسے پانے کی خواہش بیدار ہو ئی تو میں جیسے ہی غار سے نکلنے کے لیے باہر کی طرف چلا تو غیب سے آواز آئی محبت کا دعویٰ تو ہم سے تھااب کدھر جا رہے ہو عرق ندامت میں غرق فوری واپس آیا آکر اپنی ایک ٹانگ کاٹ کر پھینک دی اور دن رات گریہ زاری جا ری ہے کہ روز محشر دوست کو اپنا چہرہ کیسے دکھائوں گا میں نے تو رب تعالیٰ سے عشق کا دعویٰ کیا تھا روز محشر اُس نے طعنہ مار دیا تم تو کسی عورت کے حسن میں گرفتار ہو گئے تھے تو میرا کیا بنے گا یہ کہہ کر بزرگ زارو قطار رونے لگا بابا فرید بھی شیخ عبدالواحد کی گریہ زاری دیکھ کر ہچکیاں لے کر رونے لگے کہ کہ خدا کے عشق میں کو ئی اِس طرح اپنی زندگی وار سکتا ہے کہ ایک نظر کسی دوسرے کی طرف دیکھنے پر ندامت کی آگ میں مسلسل جھلس رہا تھا حقیقت میں حق تعالیٰ بابا فرید کی اِس طر ح تربیت بھی کر رہا تھا کہ عشق الٰہی اِسے کہتے ہیں خو دکو الٰہی رنگ میں اِس طرح ڈھالا جاتا ہے یہاں پر بابا فرید نے ہجر کی آگ میں جھلستے سوختہ عشق کو دیکھا جو دنیا و مافیا سے دور اپنے خالق کے عشق میں قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا بابا فرید دل میں بار بار یہی سوچ رہے تھے کہ کیسے کیسے جان سوختہ عشق ِ حق تعالیٰ کے عشق میں دن رات جھلس رہے ہیں جنہیں نہ دنیا کی پروا نہ دنیا کے نظاروں کی وہ دنیا کی رنگینیوں اورذائقوں سے دور جنگلوں میں صرف اور صرف اللہ کے عشق میں پڑے تھے جنہیں دنیا کی کو ئی بھی کشش یا ترغیب اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی تھی اِن کا جینا مرنا صرف اور صرف آتش ِ عشق میں جھلسنا تھا بابا فرید نے اِس عشق بے نیاز کی قربت میں کئی دن راتیں گزار کر اپنی روح کی پیاس کو درویش باکمال کی صحبت سے خوب سرشار کیا تو آخر کار ایک دن رخصت کی اجازت چاہی تو حضرت شیخ عبدالواحد خاموش ہو گئے رات کے آخری پہر بابا فرید نے پھر رخصت کی گزارش کی تو حضرت شیخ عبدالواحد اداس غمگین لہجے میں بولے اے جان پدر اب تو بھی ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔
ہماری تنہائی اور اداسی جو تھوڑی کم ہو ئی تھی اب پھر میرے مقدر میں تنہائی اداسی ہجر کی راتیں ہو نگیں حضرت شیخ عبدالواحد کے لہجے سے جدائی کا غم ٹپک رہا تھا کسی کے جانے کا دکھ جدائی کا زہر حضرت شیخ عبدالواحد کو ڈس رہا تھا بابا فرید شیخ جی کے غم اداسی کو دیکھ کر خود بھی اداس ہو گئے بولے شہنشاہِ عشق اگر آپ حکم کریں تو میں ساری زندگی آپ کے قدموں سے لپٹا رہوں گا آپ کی غلامی میں ہی تو زندگی کا اصل رنگ ہے تو آتشِ عشق کا راہی بو لا نہیں فرید تجھے تو لاکھوں بے نور اندھی روحوں کو روشنی دکھانی ہے تو تو مشعل راہ ہے ایک خلقت اور آنے والا زمانہ تیرا انتظار کر رہا ہے تجھے تو آنے والے زمانوں کو ایمان کی روشنی بخشنی ہے تو نے تو گناہ گار سیاہ کاروں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالنا ہے بس ایک رات اور ٹہر جا میں صبح تجھے اپنی دعائوں کے سائے میں رخصت کروں گا پھر آتشِ عشق کا مسافر مراقبے میں غرق ہو گیا۔
صبح ہو ئی تو جوان فرید سر جھکائے بیٹھا تھا تو حضرت شیخ عبدالواحد بولے اے فرید میں تجھے دوست بنا کر رکھ تو لوں لیکن میں تو کسی اور سے دوستی کا وعدہ کر چکا ہوں پھر بند گان ِ خدا کا ہجوم تیرا منتظر ہے جا آنے والا زمانہ تیر ا منتظرہے تو جہاں بھی رہے گا میری دعائوں کے سائے میں رہے گا پھر حضر ت شیخ عبد الواحد لڑکھڑاتے ہو ئے اٹھے اور جوان فرید کو اپنے سلگتے ہو ئے سینے سے لگا لیا بابا فرید فرماتے ہیں جیسے ہی حضرت نے مجھے اپنے سینے سے لگایا مجھے لگا آگ کا نور میرے چنگاریوں کی شکل میں میرے سینے میں منتقل ہو رہا ہے جن کی تپش سے میرا سار اجسم آتشِ عشق میں جلنے لگا یہی وہ عشق کا شعلہ تھا جس میں حضرت عبدالواحد ہر وقت سلگتے رہتے تھے جو آنے والوں کو آتش ِ عشق کے شعلوں میں جھلسا کے رکھ دیتا حضرت عبدالواحد نے بابا فرید کو گلے سے لگا کر سوز بھرے لہجے میں کہ اے فرید دنیا تو ہمارے پاس نہیں ہے صرف عشقِ الٰہی کی آگ ہے اُس آگ کی ایک چنگاری تمہاری نظر کر تا ہوں یہی چنگاری تمہارے لیے مشعل راہ کا کام کر ے گی پھر بابا فرید آتش عشق کے اِس عظیم درویش سے دعائیں لے کر چشت کی طرف چل پڑے وہ چشمہ معرفت جس سے لاکھوں پیاسے لوگوں نے اپنی روحانی پیاس بجھانی تھی۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org