عشق رسول جنت سے بڑھ کر (حصہ) 17

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آسمان پر اربوں چاند ستارے روز اول سے روز محشر تک اسی طرح چمکتے دمکتے رہیں گے۔ ان چاند ستاروں کی اپنی اپنی اہمیت اور نرالی ہی شان ہے لیکن اِن چاند ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ایسا روشن چاند بھی ہے کہ اُس کے سامنے باقی سب کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔ جو اعزاز اور مقام مرتبہ اس روشن چاند کو ملا وہ اور کسی کے مقدر میں نہیں ہے کیونکہ سید الانبیا تاجدار عرب و حجم افضل البشر رحمتہ للعالمین خاتم النبین و المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار اِس عاشق صادق کے عشق کا اعتراف اور بر ملا اظہار کیا ہے ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بار اِس چاند حضرت اویس قرنی کی مدح سرائی کی ہے۔

خالق ارض و سما کی یہ کائنات پر اسرار بھیدوں اور رازوں سے بھری ہوئی ہے سرور کونین ۖ ساری عمر حضرت اویس قرنی سے محبت کا اظہار کرتے رہے اور حضرت اویس قرنی بھی ہر لمحے عشقِ رسول ۖ گزارتے رہے لیکن اللہ تعالی کی بڑی حکمت کے تحت حضرت اویس قرنی کی آقائے دو جہاں ۖسے ملاقات نہ ہو سکی حضرت اویس اپنی نابینا اورضعیفہ والدہ ماجدہ کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے آپ ہمیشہ والدہ سے اجازت مانگا کرتے مگر وہ اجازت نہیں دیتیں تھیں بالآخر ایک دن آپ کی والدہ نے آپ کو اِس شرط پر جانے کی اجازت دی کہ اگر نبی کریم ۖ گھر پر موجود نہ ہوں تو رکنا نہیں واپس چلے آنا فخرِ دو عالم حضور پر نور ۖ نے حضرت عائشہ سے فرما دیا تھا کہ خاصانِ خدا میں سے ایک شخص ہمارے گھر آئے گا اگر اتفاقاً میں گھر پر موجود نہ ہوں تو اپس نیک مہمان کا بہت زیادہ احترام کرنا اور اُن کا حلیہ ضرور یا درکھنا کیونکہ اُن کا حلیہ اور زیارت کرنا سعادت کی بات ہے ماں نے جب دیوانے کو مدینہ جانے کی اجازت دی تو ننگے پائوں چاک گریبان سوئے مدینہ بھاگ کھڑے ہوئے خوشی کا یہ عالم کہ پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔

جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو محبت سے درو دیوار کو بوسے دیتے اور راہ گیروں سے پوچھتے اے لوگو میرے محبوب آقائے دو عالم ۖ کا گھر مبارک کدھر ہے عالم وارفتگی و عشق میں حجرہ حضرت عائشہ پر پہنچے اور دردِ فراق میں ڈوبی آواز سے عرض کی میرے آقا ۖ کدھر ہیں اُس وقت نبی کریم ۖ گھر پر تشریف فرما نہیں تھے ہماری ماں حضرت عائشہ نے عزت و احترام کرتے ہوئے فرمایا آپ اندر تشریف لے آئیں تو عاشقِ رسول ۖ نے فرمایا میں اندر نہیں آسکتا ماں سے آٹھ پہر کی اجازت لے کر آیا تھا چار پہر گزر گئے واپسی میں چار لگ جائیں گے اور الٹے پائوں واپس لوٹ گئے اب ہجر و فراق کے زخم اور بھی گہرے ہوگئے ۔حضرت اویس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد محسنِ انسانیت محبوب خدا ۖگھر تشریف لائے اور فرمایا عائشہ یہ نور کیسا ہے تو عرض کی یا رسول اللہ ۖ قرن سے اِس حلیہ کا آپ ۖ کا دیوانہ آیاتھا سلام کہہ کر واپس چلا گیا آقا ۖ نے فرمایا یہ نور اویس کا ہے یہ وہی دیوانہ آیا ہو گا حضور ۖ پر نور کی چشمان مبارک نم آلود ہو گئیں۔

آقا دو جہاں ۖکے وصال کے بعد جب حضرت اویس قرنی کوآپ ۖ کے روضہ مقدسہ کی زیارت کا شوق کا غلبہ چڑھا اور اُس وقت آپ کی والدہ ماجدہ بھی وفات پا چکیں تھیں تو آپ مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسجد نبوی کے دروازے پر کھڑے ہو گئے تو لوگوں نے کہا یہ نبی کریم ۖ کا مزار شریف ہے تو یہ سن کر آپ بے ہو ش ہو گئے جب ہوش آیا تو فرمایا مجھے اِس شہر سے باہر لے چلو کیونکہ جس زمین میں میرے آقا ۖآسودہ خاک ہیں وہاں میر ا رہنا مناسب نہیں اِیسی مقدس و مطہر جگہ قدم رکھنا بے ادبی ہے ۔اِس عاشق کی شان دیکھیے جب سرور دو عالم ۖ کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ آپ ۖکے بعد آپ ۖ کا جُبہ مبارک کس کو دیا جائے سرور دو جہاں ۖ نے ارشاد فرمایا اویس قرنی کو ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں ایک دن رسول کریم ۖ نے مجھ کو آواز دی اے عمر میں بولا یا رسول اللہ ۖ میں حاضر ہوں جو حکم ہو بجا لانے کو تیار ہوں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ آقا نبی کریم ۖ مجھے کسی کام سے کہیں بھیجیں گے لیکن پیارے آقا ۖ نے مجھ سے یوں فرمایا اے عمر میری امت میں ایک شخص ہو گا جس کا نام اویس ہو گا اگر تم اس سے ملو توتمھیں خدا کی یا د آئے گی تم جب بھی اُس سے ملنا تو اس کو میر ا سلام کہنا اور اُس سے اپنے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک ایسا معزز ہے کہ اللہ تعالی کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالی اِس کی قسم کو سچ کر دیتا ہے۔حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ کا ارشاد سنتے ہی میں نے اِس شخص کو تلاش کیا نبی کریم ۖ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر کا دور ختم ہوا میں مسلسل اِسی تلاش میں لگا رہا۔

Allah

Allah

ایک دن حضرت عمر کوفہ میں آئے اور خطبہ دیا اور کہا اہل نجد کھڑے ہو جائو وہ کھڑے ہو گئے پھر فرمایا تم میں کوئی قرن کا رہنے والا ہے تو قرن والوں کو امیر المومنین کے سامنے پیش کر دیا گیا حضرت عمر نے اویس قرنی کے بارے میں دریافت کیا تو زیادہ تر لوگوں نے انکا ر کیا لیکن ایک شخص بولا میں ایک دیوانے اور حقیر فقیر کو جانتا ہوں وہ لوگوں سے دور بھاگتا ہے وادی میں اونٹ چراتا ہے نہ آبادی میں آتا ہے اور نہ ہی کسی سے میل جول رکھتا ہے جب لوگ ہنستے ہیں تو وہ روتا ہے اور جب لوگ روتے ہیں تووہ ہنستا ہے یہ باتیں سنتے ہیں حضرت عمر فاروق اور حضرت علی اُس وادی کی طرف روانہ ہوئے جب یہ دونوں عظیم حضرات حضرت اویس قرنی کے پاس پہنچے تو وہ اُس وقت نماز میں مشغول تھے اور اونٹوں کی حفاظت ایک فرشتہ کر رہا تھا۔

حضرت اویس قرنی نے نماز ختم کی توحضرت عمر فاروق نے سلام کہا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر حضرت عمر نے نام پوچھا تو انہوں نے کہا عبداللہ تو حضرت عمر نے جواب دیا کہ ہم سب بھی اللہ تعالی کے بندے ہیں اپنا خاص نام بتائیں تو حضرت اویس نے جواب دیا ”اویس ” تو حضرت عمر نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ دکھائیں جب حضرت اویس نے ہاتھ دکھایا تو حضرت عمر نے وہ نشانی موجود پائی جو نبی کریم ۖ نے اشارہ کیا تھا حضرت عمر نے اُس نشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا رسول خدا ۖ نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا کہ میری امت کے لیے دعا کریں حضرت اویس قرنی بولے اچھا تو لائو اور مجھے رسول کریم ۖ کا مرقع دو تاکہ میں دعا کروں حضرت عمر نے مرقع رسول ۖ حضرت اویس قرنی کو کو دیا اور کہا اب اِس کو پہن کر دعا کریں ۔حضرت اویس قرنی نے کہا کہ صبر کریں ان سے دور جا کر مرقع کسی گوشہ میں رکھا اور پیشانی کو خاک پر رگڑ کر عرض کہ یا الہی جب تم تمام امت محمدی ۖ کو نہ بخش دے گا اِس مرقع کو جو تیرے محبوب ۖ نے مجھے بھیجا ہے نہیں پہنوں گا ۔ غیب سے آواز آئی میں کچھ امت کو بخش دیا لباس پہن لیں عرض کیا کہ جب تک تمام امت کو بخشوا نہیں لوں گا اِس وقت تک یہ لبا س نہیں پہنوں گا یہ تکرار بڑھتی چلتی گئی اور امت کی بخشش میں اضافہ ہو تا چلا گیا یہاں تک کہ حضرت عمر اور حضرت علی آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔

جب حضرت عمر اور حضرت علی قریب آئے تو بولے ہائے افسوس تم لوگ یہاں کیوں آگئے اگر نہ آتے تو میں جب تک ساری امت محمدی ۖ کو بخشوا نہ لیتا یہ لباس نہ پہنتا ۔پھر حضرت اویس قرنی نے آقائے دو جہاں ۖ کا لباس مبارک پہن لیا اور کہا اللہ تعالی نے ربیعہ اور مِضر کی تعداد کے برابر امت محمدی ۖ کو اِس لبا س شریف کی برکت سے بخش دیا ہے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org