تحریر : منظور احمد فریدی اللہ کریم خالق ومالک کی بے پناہ حمد و ثناء جناب محمد مصطفی کریم ۖپر درودوسلام کے کروڑہا بار نذرانے پیش کرنے کے بعد رمضان المبارک کے تیسرے یوم کو وصال جناب فاطمہ زہرا کے حوالہ سے زیر نظر مضمون ترتیب دیا ہے قارئین کرام رحمتوں برکتوں اور اللہ کریم کی عنایات کی بے پناہ بارشوں کے اس ماہ مقدس میں یہ مضمون محض اس ارادہ سے رقم کیا کہ اس کو پڑھ کر میری قوم کی ایک بیٹی بہن نے بھی عمل کرلیا تو شائد بارگاہ نبوی میں میری یہ کوشش بار آور ثابت ہو جائے۔
مقام اتنا نازک ہے کہ شعور کی گہرائیوں سے الفاظ تلاش کرکے لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپتے ہیں کہ ،،،میں کہاں جرات لب کشائی کہاں ،،مگر اس ذات کی رحمت اور غریب نوازی پیش نظر رہتی ہے فخر بنی نوع انسان جناب محمد رسول اللہ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ جنہیں بتول اور زہرا کے القاب دیے گئے پوری کائنات میں دو خواتین کو بتول کے لقب سے نوازا گیا بتول کے لغوی معنی تارک الدنیا ہے پہلی خاتون جناب مریم جو کہ حضرت عیسیٰ پیغمبر کی والدہ ماجدہ ہیں چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو خالق نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر باپ پیدا فرمایا اس لیے جناب مریم کو بتول کہا گیا دوسری مرتبہ یہ لقب اس خاتون کو ملا جس نے بحکم ربی شادی بھی کی بچے بھی جنے اور ماں کے ساتھ ساتھ ایک صابرہ شاکرہ بیوی بھی بن کر دکھایا اس کے باوجود بھی اللہ نے خود قرآن میں اسکی پاکیزگی کو یوں بیان فرمایا کہ ہم نے ہر طرح کی نجاست سے اسے پاک کردیا اور یوں جناب فاطمہ کو اللہ نے بتول کے رتبہ پر فائض فرما دیا۔
زہرا کے معنی کلی کے ہیں آپ ۖ فرماتے ہیں کہ فاطمہ جنت کی کلی ہے اور متعدد معتبر روایات سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ کے جسم اطہر سے جنت کی خوشبو آتی تھی جسے نبی کریم پیشانی چومتے وقت سونگھا کرتے تھے آپ کی ولادت اعلان نبوت کے پہلے اور بعض روایات میں پانچویں سال ہوئی جناب سیدہ کا ابھی بچپنا تھا جب رسول خدا کے اوپر سجدہ کی حالت میں ایک کافر نے اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی سیدہ نے دیکھا تو روتے ہوئے ہٹائی تو اسی وقت رسول خدا نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے دکھ دیا اس نے اللہ کو ناراض کیا نبی کریم کو آپ سے اس حد تک محبت تھی کہ جب آپۖ اپنے صاحبزادے اور جناب حسین کو گود میں اٹھائے تشریف فرمائے تھے تو حکم ربی ہوا کہ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرلیں آپۖ نے اپنے بیٹے کو رکھنے کے بجائے جناب حسین کو رکھنے کا وعدہ کیا تو جبرائیل علیہ السلام نے سوال کیا کہ حضور جب اللہ نے آپکو اتنا اختیار دیا تو آپ نے بیٹے کے بجائے نواسہ کو کیوں بچا لیا تو آپ نے فرمایا کہ حسین کے وصال سے فاطمہ کو دکھ ہوتا اور اگر فاطمہ روئے تو مجھے گوارہ نہیں۔
ام المومنین جناب عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے علم و عقل فصاحت وبلاغت میں آقا ۖ کے بعد صرف جناب فاطمہ کو ہی پایا آپکی شرم و حیا کا عالم یہ تھا کہ گھر میں چکی پیستے پانی بھرتے تھک گئیں تو ایک دن اس ارادہ سے رسول خدا ۖ کے پاس آیئں کہ کوئی باندی طلب کرینگی مگر فطرتی شرم وحیاء سے یہ بات بھی رسول خدا کو نہ کہہ سکیں غزوہ احد میں رسول خدا کے زخم صاف کرتی رہیں اور کئی غزوات میں آقا کریم کی قربت اختیار فرمائی علم کا عالم یہ تھا کہ وحی کی ایک ایک آیئت مبارکہ ازبر تھی جناب حسن و حسین کو بھیج کر ہر نئے حکم کا پتہ کروا لیتیں اور اس پر عمل پیرا ہوجاتیں جب رسول اللہ نے حضرت علی کے ساتھ سیدہ کا نکاح فرمایا تو جو جہیز ساتھ دیا اس میں ایک پانی بھرنے والا مشکیزہ ایک چکی ایک کجھور کے پتوں سے بھرا ہوا تکیہ اور ایک چٹائی شامل تھی۔
آج ہماری نام نہاد تنظیموں نے معاشرہ میں عورت کو شانہ بشانہ چلنے کا سبق دے کر اس سے وہ عزت چھین لی جو آقا نامدار نے عورت کو عطا فرمائی مگر یہ ایک الگ موضو ع بن جاتا ہے جس پر پھر کسی دن جسارت کرونگا آج تو بارگاہ رسالت میں ہدیہ تبریک پیش کرنا ہے سیدہ فاطمہ الزاہرا بتول کی تعلیمات میں سے تبرک کے طور پر اپنی قوم کی بیٹیوں کو تین باتیں دینا چاہتا ہوں آپ فرماتی ہیں عورت کا عورت ہونا تب ہی ثابت ہے جب کوئی غیر محرم اسے نہ دیکے اور وہ کسی غیر محرم کو نہ دیکھے اور اپنی اس بات پر جنابہ سیدہ کا اپنا عمل اس قدر ہے کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ کھجور کی شاخوں سے ڈھک دیا جائے اور رات کے وقت میں گھر سے قبرستان لے جایا جائے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ میرے جنازہ پر بھی کسی غیر محرم کی نظر نہ پڑے اور حضرت علی نے من و عن آپ کی وصیت پر عمل کیا دوسرا آپ نے فرمایا کہ شوہر عورت کا کفیل ہوتا ہے اور زمین پر خدا کے بعد اسکی اطاعت عورت پر لازم ہے عورت کو چاہیئے کہ وہ صبر شکر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے اور اپنے شوہر کو ناجائز رزق کی فرمائش نہ کرے اس پر بھی عمل کا یہ عالم ہے کہ جناب علی کے گھر کئی کئی روز چولہا نہ جلتا مگر صبر و استقامت کے اس پیکر نے کبھی حرف شکایت زبان پر نہ آنے دیا تیسری اور آخری بات جناب فاطمہ زہراہ کا فرمان یہ ہے کہ جس طرح مرد پر اللہ کی اطاعت فرض ہے اسی طرح عورت کو بھی چاہیئے کہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسکی عبادت اس حد تک کرے کہ اللہ راضی ہو جائے۔
قارئین ذی احترام جناب فاطمہ کی ذات کے شرم حیاء اور پردہ داری کا عالم یہ ہے کہ بروز محشر ایک فرشتہ اللہ کے عرش کے ساتھ کھڑا ہوکر منادی کرے گا کہ تمام حاضرین اپنے سر جھکا لیں اور آنکھیں بند کرلیں کیونکہ جناب فاطمہ لخت جگر مصطفیۖ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہورہی ہیں اللہ کریم ہماری بیٹیوں بہنوں کو اسوہ فاطمہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت کی کا میابیاں و کامرانیاں عطا فرمائے۔ آمین بجاہک سید المرسلین والسلام