تحریر: حنظلہ عماد یونیورسٹیز اور جامعات وہ ادارے ہیں کہ جن میں کسی بھی ملک وقوم کا مستقبل پروان چڑھتا ہے۔ یہیں بہترین دماغ پرورش پاتے ہیں اور مسائل کا حل بھی انہی جامعات میں تلاش کرنے میں ہی عافیت ہے لیکن اس سب کے لیے ان جامعات کا ماحول پرامن اور پر سکون ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ تخلیق اور تعمیر کے لئے یہ دو عناصر کا ہونا لازم ہے۔
چندروز قبل چارسدہ یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں ملک بھرکی جامعات میں ایک خوف کی فضا ہے۔اس حملے میں 20کے قریب طلبا نے جام شہادت نوش کیا اور بہت سے زخمی بھی ہوئے۔اس حملے کے بعد ہر یونیورسٹی کے طلبا ڈر کی کیفیت میں ہیں۔ہرآن دھڑکااور ہرآہٹ خوف کاپیغام لیے آتی ہے۔اس کی واضح مثال لاہور میں سیکیورٹی اداروں کی طرف سے دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے بچنے کے لئے کی گئی حفاظتی مشق میں سامنے آئی کہ طلبہ و طالبات کس قدر ہراساں ہیں۔
جامعہ پنجاب اور دیگر اداروں میں جب یہ مشقیں کی گئیں تو طلبا نہ صرف ڈر کے مارے چیختے چلاتے رہے بلکہ بہت سے طلبا و طالبات حواس باختہ بھی نظرا ئے۔ محض پولیس اور دیگر اداروں کے افراد کی اسلحہ کے ساتھ آمد ہی ان کے اوسان خطا کر دیتی ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جامعات کاماحول دوبارہ پرامن اورتعلیم دوست بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔طلبا میں اعتماداور دہشت گردوں کیخلاف جرات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
Terrorists Attack Bacha Khan University
بات اگر یوں کی جائے کہ ملک بھرکی یونیورسٹیز میں سکیورٹی بڑھادی جائے توایساممکن نہ ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کے مطابق ملک میں 135 سرکاری وغیرسرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ان میں سے زیادہ تر گنجان باد علاقوں میں ہے اور ہر ایک وسیع رقبہ بھی گھیرے ہوئے ہے۔ان کی چاردیواری کو ہی محض محفوظ کرنے کے لئے کروڑوں کا سرمایہ درکار ہے اور تعلیم کے بجٹ کی صورتحال سے ہم بخوبی واقف ہیں۔یوں بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ہرایک کی سکیورٹی پرپولیس اورفوج کو تعینات کر دیاجائے۔اس کے علاوہ سکولز اورکالجز بھی بے شمار ہیں۔ان سب کی سیکیورٹی بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اس مسئلے کا آسان اور دیرپاحل موجودہے۔محض حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے۔کیونکہ اگر آپ سکیورٹی دے بھی دیں تو بھی طلبا کوخوف کی فضا سے باہر نکالنااورمشکل ہوگاکہ ہر وقت سنگینوں کے حصاروں میں نہ صرف تخلیق دم توڑدے گی بلکہ ہماری جامعات کارہاسہامعیار بھی مزید گر جائے گا۔
ہم ماضی کے اگرتھوڑے بوسیدہ اوراق کو پلٹیں توہمیں پاکستان کے تعلیمی اداروںمیں ایک فوجی ٹریننگ کی جھلکیاں ملیں گی جسے NCC کہاجاتاتھا۔ریٹائرڈ فوجی اس وقت کے تعلیمی اداروں میں طلبا کو یہ تربیت دیتے تھے جس میں بنیادی فوجی تربیت کے ساتھ شہری دفاع کی تربیت بھی شامل ہوتی تھی۔ اس وقت اگرچہ یہ ضروری نہ تھی لیکن بہت سے طلبا یہ تربیت حاصل کرتے تھے۔
اس کی ایک وجہ اس کے اضافی 20نمبروں کی کشش بھی تھی۔طلبافوجی وردی میں محدود عرصے کی یہ تربیت حاصل کرتے تھے۔اس سے نہ صرف ملک وقوم کے لیے قربان ہونے کا جذبہ بیدارہوتاتھا بلکہ خوف بھی ختم ہوجاتا تھا اورکسی بھی دشمن سے نبٹنے کے لئے ایک اعتماد طلبا میں در آتا تھا۔جبکہ آج صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہمارے طلبا ہتھیار دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں جبکہ اگر وہ اس کی تربیت حاصل کریں گے تو یقینا ان کا خوف بھی دور ہوگااور خود اعتمادی بھی بڑھے گی۔
Educational Institutions Without Security
آج پھر اسی تربیت کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں طلبا کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے ۔ سر فہرست ابتدائی طبی امداد کی تربیت اور بعد ازاں فائر فائٹنگ اور شہری دفاع کے دیگر لوازمات شامل ہیں۔پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور حالت جنگ میں قومیں ہر طرح کے حالات کے لئے خود کو تیار رکھتی ہیں۔ہم دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ جیت رہے ہیں اور دشمن محض خوف مسلط کرنے کی بنیاد پر اس جنگ میں فتح نہیں پا سکتا۔
یاد رکھیں فوج کے ذمہ لڑنا ہوتا ہے ۔وہ دفاع بخوبی کرتی ہے اور دشمن کے دیگر حربوں کو ناکام بنا نا یقینا عوام کے ذمہ ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جنگیںفوج نہیں بلکہ عوام لڑا کرتی ہے۔ ہماری فوج اپنے حصے کی جنگ بہت احسن انداز میں لڑ رہی ہے ۔آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہمارے سامنے ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حصے کا کردار نبھائیں۔ہماری حکومت اس سلسلے میں آگے بڑھے اورملک بھر میں تمام شہریوں اور بالخصوص طلبا کے لئے ایسے کورسز کا آغاز کرے ۔ جن میں طلبا کو نہ صرف ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دی جائے بلکہ انہیں ابتدائی طبی امدا د ،فائر فائٹنگ اور شہری دفاع کے تمام کورسزبھی کروائیں جائیں۔
ہماری حکومت شایداس ڈر سے طلبا کو تربیت نہیں دیتی کہ دنیاہمیں دہشت گرد نہ سمجھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیامیں طلبا کو ایسی تربیت دی جاتی ہے کہ جس کے ذریعے وہ نہ صرف شہری دفاع سیکھتے ہیں بلکہ پراعتماد اندازمیں ملک وقوم کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ان ممالک میں سرفہرست اسرائیل ہے کہ جہاں انٹر یا گریجوایشن کرنے کے لیے فوجی تربیت حاصل کرنالازم ہے۔کوئی بھی طالب علم اس وقت تک اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتا کہ جب تک وہ مخصوص حد تک فوجی تربیت نہ حاصل کر لے۔جبکہ بعض معاملات میں تو طلبا کے لئے میدان جنگ میں وقت گزارنا بھی لازم قرار دیا جاتا ہے۔
Terrorism
برطانیہ جیسے ملک میں بھی اس کو پرکشش اندازمیں پیش کیا جاتا ہے کہ طلبا بنیادی فوجی تربیت حاصل کریں۔ امریکہ ،جرمنی ،فرانس اور دیگر تمام ترقی یافتہ دینا میں طلبا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بنیادی فوجی تربیت اور شہری دفاع کی تربیت حاصل کریں۔اور تو اور ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی طلبا کو یہ تربیت دی جاتی ہے۔اگرچہ کچھ عرصہ قبل تک اس کی اتنی پذیرائی نہ تھی لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے سیاستدان بھی وہاں اس عمل کو پذیرائی دینے میں اپناکرداراداکررہے ہیں۔اگران سب ممالک میں ایساہوسکتاہے تو پاکستان پیچھے کیوں رہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان حکومت اس قسم کے کورسز کاآغاز کروائے اور طلباکی تربیت کا اہتمام کرے۔ یہ نہ صرف حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مفید ہے بلکہ نوجوان طلبا کے لیے بھی دیرپا مفید اثرات کی حامل ہے۔