جامعہ علیمیہ دینی و عصری تعلیم کا امتزاج ہے
Posted on February 14, 2013 By Noman Webmaster سٹی نیوز
الوفاق العالمی للدعو الاسلامی یعنی ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشن کا قیام حضرت علامہ ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری صاحب کی کوششوں کی بدولت 28 اگست 1958میں عمل میں آیا،1965میں جامعہ علیمیہ کی موجودہ عمارت مکمل ہوئی،29اگست 1971 کو اس ادارے کی پہلی تقریب تقسیم اسناد منعقد ہوئی،جس سے اس ادارے نے ایک بین الا قو ا می تعلیمی ادارے کی شکل اختیارکرلی ،آج یہ ادارہ مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی کی عظیم القدر تبلیغی اور دینی وملی خدمات کے اعتراف کے طور پر جامعہ علیمیہبھی کہلاتا ہے۔
اس ادارے کے قیام کا مقصد دنیا بھر کی اسلامی سرگرمیوں کو ایک رابطے میں منسلک کرنا،دوردراز کے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی دینی وروحانی تربیت،اندرون و بیرون ملک علمائے دین کے تبلیغی و اصلاحی دوروں کا اہتمام، مروجہ لادینی نظام تعلیم اور غیر فکر کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا، مسلم ممالک کے نوجوانوں کے درمیان اسلامی تعلیمات اور فکر کی ترویج اور دور جدید کے مسائل کے مطابق اسلامی تعلیمات کی تشریح اور عملی زندگی میں اطلاق ہے۔
اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس ادارے کی ابتدائی پہلی جماعت کے طلباکا تعلق پاکستان کے علاوہ مشرقی افریقہ،جنوبی امریکہ، غرب الہند اور جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے طلباپر مشتمل تھا،بعد میں بتدریج فیجی، آسڑیلیا، فلپائن،انڈونیشیا،کوریا،تھائی لینڈ، سنگا پور ، سیلون، ماریشش،موزنبیق،گھانا،جرمنی اور کناڈا وغیرہ کے طلبانے بھی اس ادارے میں تعلیم حاصل کی، آج بھی بہت سے ممالک کے طلبااس ادارے میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
جامعہ علیمیہ کا نصب العین ایسے جامع علمائے دین پیدا کرنا ہے جو عربی زبان وادب ،علوم شرعیہ اور افکار جدیدہ پر مبنی اپنی تعلیم و تربیت کے باعث عصر حاضر کے انسانوں کی صحیح رہبری و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں، اس لحاظ سے دینی و عصری علوم سے مزین علماکی تیاری میں جامعہ علیمیہ کا منصوبہ جلیل القدر مقاصد کا حامل ہے اور آج اس ادارے سے فارغ التحصیل طلباشیخ الجامعہ جناب سرفراز صابری صاحب اور قابل اساتذہ کی سرپرستی میںاندورن و بیرون ملک گرانقدر دینی وملی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جامعہ علیمیہ کراچی پاکستان محض ایک دینی درسگاہ نہیں، بلکہ یہ انگریزی نظام تعلیم کی پیدا کردہ دینی ودنیاوی تفریق کو دور کرنے کی ایک سعی بلیغ اور جامع انقلابی تعلیمی منصوبہ ہے، جس میں داخلہ کے وقت طلبا کا او لیول یا میٹرک پاس ہونا لازمی ہے،جامعہ علیمیہ کراچی یونیورسٹی سے ایفیلیٹڈ بھی ہے، اس ادارے میں دینی و عصری علوم کے حسین امتزاج سے ایسی متوازی تعلیم و تربیت کا انتظام ہے جو اسلام کی حقانیت،اسلامی نظریہ حیات کی عظمت اور اسلامی طرز معاشرت کی برتری کا طلبامیں احساس پیدا کرکے انہیں معاشرے میں متحرک و فعال کردار ادا کرنے کا جذبہ بھی عطا کرتا ہے اور ان کے کردار وعمل میں وہی جھلک نظر آتی ہے جس کا دین متین ایک مبلغ سے تقاضہ کرتا ہے۔
اس مقصدکے حصول کیلئے جامعہ علیمیہ نے اپنا ایک علیحدہ تعلیمی نصاب مرتب کیا ہے،جس کی خصوصیت یہ ہے کہ طلباکی تعلیم و اساس علوم دینیہ پر رکھتے ہوئے ان میں علوم وفنون کا حسن امتزاج پیدا کیا جاسکے ،جامعہ علیمیہ میں عربی زبان وادب،تفسیر واصول تفسیر،حدیث و اصول حدیث،فقہ و اصول فقہ،علم کلام و افتا،سیرت طیبہ وتاریخ اسلام کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان وادب،منطق،قدیم وجدید فلسفہ ،نفسیات و تاریخ،معاشیات، سیاسیات، عمرانیات،تقابل ادیان وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے،یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ علوم دینیہ کی تعلیم عربی زبان اور دیگر عصری علوم کی تعلیم انگریزی زبان میں ہوتی ہے تاکہ طلبااصل ماخذات سے پوری طرح مستفید ہوسکیں، نصابی کتب کے انتخاب میں اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ طلبہ عربی استعداد بڑھاسکیں اور اعلی معیار پر علوم دینیہ کی ٹھوس قابلیت اور بصیرت حاصل کرسکیں۔
اس مقصد کیلئے جامعہ علیمیہ کے نصاب کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے،پہلا مرحلہ درجہ اعدادی واعلی ثانوی اور درجہ عالیہ پر مشتمل ہے۔درجہ اعدادی و اعلی ثانوی ،تین سال پر مشتمل ہے،جس میں ابتدائی عربی،صرف و نحو،عقائد و عبادات،تجویزوقرات اور قرآن مجید کی صورتوں کے ترجمے و تشریح اور تقابل ادیان کے ساتھ انٹر میڈیٹ سال اول اور دوم کے نصاب کے مطابق انگریزی،معاشیات،تاریخ اسلام منطق و اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جبکہ درجہ عالیہ،دوسال کے نصاب پر مشتمل ہے، جس میں عربی زبان وادب،انشاوبلاغت،تفسیر حدیث و فقہ، علم الکلام اور تقابل ادیان کے ساتھ ساتھ بی ،اے سال اول و دوم کے نصاب کے مطابق معاشیات ،سیاسیات،فلسفہ،تاریخ اسلام ، تقابل ادیان اور اسلامک اسٹڈیز کی تعلیم دی جاتی ہے۔دوسرا مرحلہ درجہ کامل کہلاتا ہے جو کہ دو سال پر مشتمل ہے،اس مرحلے میں درج الاجاز العالیہ کی سند حاصل کرنے والے طلباکو داخلہ دیا جاتا ہے اور انہیں جامعہ علیمیہ کے نصاب کے ساتھ عربی، معارف اسلامی، معاشیات، سیاسیات اور فلسفہ وغیرہ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم، اے کا پاس کرنا ضروری ہے۔
اس مرحلے میں کامیاب طلباکو درج الکامل کی سند ملتی ہے۔جبکہ تیسرا مرحلہ درج اختصاص تین سال پر مشتمل ہے،جس میں کامل سند حاصل کرنے والے طلباکو داخلہ دیا جاتا ہے،یہ درجہ تحقیقی نوعیت ہے جس میں کامیاب طلبادرج التخصص کی سند حاصل کرتے ہیں ،اس منزل پر طلباکراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر اپنے ایم،اے کے مضامین کے مطابق پی ایچ ڈی کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
جامعہ علیمیہ میں طلباکی رہائش کیلئے ضروری سہولتوں سے آراستہ ہاسٹل کا بھی اتنظام ہے،جامعہ میںطلباکی سہولت کیلئے ایک اعلی درجے کی لائبریری بھی موجود ہے، جس میں علوم دینیہ سے متعلق عربی،اردو اور انگریزی میں کتابوں کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے،یہ بات بہت اہم ہے کہ جامعہ طلباکو نصابی کتب اور رہائش مفت فراہم کرتی ہے، جبکہ طلباکے تزکیہ نفس اور تعمیر سیرت کیلئے جامعہ کے احاطے میں ایک عالیشان مسجد اوردارالتربیت بھی موجود ہے۔
ہفتہ 9 فروری 2013کو جامعہ علیمیہ کے شیخ الجامعہ جناب سرفراز صابری صاحب نے 44ویں سالانہ جلسہ دستار بندی و تقسیم اسناد کا نعقاد کیا،جس میں ملک کے ممتاز علماکرام ،دانشور،سیاسی و سماجی شخصیتوں کے علاوہ طلبااور لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی،اس مقصد کیلئے جامعہ کی مسجد کے صحن میںخوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا،اس پروقار تقریب تقسیم اسناد کی صدارت صاحبزادہ مصطفے فاضل انصاری سرپرست ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشن نے کی،جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی سجادہ نشین ابومکرم ڈاکٹر سید محمد اشرف الجیلانی دامت ابرکاتہم العالیہ تھے۔
دیگر مہمانان گرامی میں ممتاز قانون داں بیرسٹر فروغ نسیم،علامہ حیات نور صاحب پرنسپل علیمیہ اسلامک سینٹر ماریشش،مفتی عبدالحلیم ہزاروی، علامہ خلیل الرحمن چستی،علامہ زاہد الحق،جہانگیر صدیقی،شیخ عمران الحق،حامد علی علیمی، محمد طارق خان، مولانا یحیی صاحب ، مولانا عابد علی مسکین،مولانا محمد نعمان،قاری ظفر اور حافظ محمد شفیق صاحب وغیرہ شامل تھے۔
اس تقریب تقسیم اسناد کی نظامت علامہ مولانا عبداللہ نورانی اور علامہ عمیر محمود صدیقی صاحب نے کی ، تقریب کا آغاز قاری رضاالمصطفی صاحب نے تلاوت قرآن مجید سے کیا،جبکہ بارگاہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم میں حافظ محمودالحسین اشرفی اور سہیل مصطفی قادری نے ہدیہ نعت پیش کیا۔
ورلڈ اسلامک مشن کے تحت ماریشش میں قائم علیمیہ اسلامک سینٹر کے پرنسپل ڈاکٹر حیات نور صاحب نے 20 ویں صدی میں اسلام کے احیاکے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر آج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و صورت کو اپنالیا جائے تو مسائل ومشکلات سے بھری یہ دنیا چین و امن کا گہوارہ بن سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ ہم اسلام کی حیات نو کے منتظر ہیں مگر اسلام ہماری حیات نو کا منتظر ہے،اس موقع پر انہوں مشہور انگریز ادیب جارج برنارڈ شاہ کا قول دہراتے ہوئے کہا کہ جارج برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ میں نے اسلام کو ہمیشہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اس لیے کہ اسلام میں زندہ رہنے کی طاقت موجود ہے۔
یہ دنیاکا واحد مذہب ہے جو دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے،اگر کسی مذہب میں یہ صلاحیت موجود نہ ہو تو مذہب کو بدلنا پڑے گا یہ پھر وہ مذہب ختم ہوجائے گا،جارج برنارڈ شاہ نے تسلیم کیا کہ اسلام زندہ مذہب ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا،ڈاکٹر حیات نور صاحب کا کہنا تھا کہ لیکن ہم قومی اعتبار سے مردہ پڑے ہوئے ہیں،جس دن یہ تحریک پیدا ہوگئی بس اسی دن سے تبدیلی کا آغاز ہوجائے گا،انہوں نے فارغ التحصیل طلباکو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے اسلام کی بقااور احیاکیلئے فعال کردار ادا کرنے بھی تلقین کی۔
اسلامی قوانین اور عدالتی نظام ،نفاذ و امکانات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ممتاز قانون داں بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبے میں رہبری ورہنمائی کے جامع اصول مرتب کئے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمارا موجودہ عدالتی نظام اگر مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال دیا جائے تو معاشرے سے جرائم کا باآسانی خاتمہ ہوسکتا ہے اور معاشرہ چین و امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
صدر مجلس صاحبزادہ مصطفے فاضل انصاری نے اپنے صدارتی میں فارغ التحصیل طلباکو مستقبل میں در پیش چیلنجز سے آگاہ کیا اور انہیں آنے والی مشکلات و دشواریوں سے نبرد آزماہونے کا لائحہ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ ہمت، استقامت اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا جائے،انہوں نے فارغ التحصیل طلبامیں اسناد و انعامات بھی تقسیم کئے، آخرمیں صلو و سلام کے بعد علامہ ڈاکٹر سید محمد اشرف الجیلانی کی دعائے خیر پر یہ تقریب سعید اختتام پزیر ہوئی۔