نام کتاب: اردو ناول کے اسالیب مصنف : ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی قیمت: 135روپئے (صرف) ضخامت: 430 صفحات
اردو فکشن کے جواں سال نقادوں میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا نام نمایاں ہے۔ بعض جہتوں سے وہ ممتاز و منفرد بھی نظر آتے ہیں۔انہوں نے افسانے کی تنقید میں بھی اپنی جولانئی طبع کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اپنے مخصوص تنقیدی میلان کو ناولوں کے حوالے سے بطور خاص بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے اور اسالیب کے مطالعے تک خود کو محدود رکھاہے۔
اردو ناول کا سفر تقریباً ڈیڑھ صدی پر محیط ہے اور اس ڈیڑھ صدی میں اردو ناول نے نہ صرف مختلف رجحانات و تحریکات سے اثر قبول کیا ہے بلکہ ان کو متاثر بھی کیاہے۔اس کے اثرات کئی سطحوں پر نمایاں بھی ہوئے ہیں لیکن اس کا احساس اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ارتقائی سمت ورفتار پر نظر نہ ڈالی جائے۔چنانچہ پانچ ابواب پر مشتمل ”اردو ناول کے اسالیب”میں شہاب ظفر نے ڈپٹی نذیر احمد سے شاہد اختر تک یعنی آدم سے ایں دم تک کے ناولوں کو سمیٹنے کی کو شش کی ہے۔
یہ کوشش فی الواقع تین ابواب کا احاطہ کر تی ہے یعنی اردو ناول کا سفر دوسرے باب سے شروع ہوکر چوتھے باب پر ختم ہو جاتاہے۔دراصل پہلے باب میں ناول کے حوالے سے اسلوب کی تعریف و تو صیف اور مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور پانچواں باب محاکمے کے لئے وقف کیا گیا ہے۔تجزیے کے لئے جن ناولوں کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ،ان کی درجہ بندی چونکاتی ہے کیونکہ شہاب نے بنیادی طور پر ان ناولوں کے تین ہی ادوار مقرر کئے ہیں۔
یعنی اردو ناول کے اسالیب ترقی پسند تحریک سے پہلے ،ترقی پسند اردو ناول کے اسالیب اور اردو ناول کے اسالیب ترقی پسند تحریک کے بعد۔اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی پسند اردو ناول کو انہوں نے مرکزی حیثیت دے دی ہے یا اسے بنیاد بنایاہے۔جب کہ اس کے تحت صرف آٹھ عددناول لئے گئے ہیں۔لندن کی ایک رات(سجاد ظہیر)،گریز اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں(عزیز احمد)،شکست،ایک گدھے کی سر گزشت،اور گدھے کی واپسی(کرشن چندر)اور ضدی اور ٹیڑھی لکیر(عصمت چغتائی)۔
اس میں شبہ نہیں کہ ترقی پسند تحریک اردو ادب کی سب سے طاقتور تحریک تھی جس نے ادب کی مختلف اصناف، موضوع اور اسالیب کو متاثر کیا۔ لیکن اس کے رد عمل کے طور پر جو جدیدیت کا رجحان سامنے آیااور جدیدیت کے نام سے ادبی تاریخ کا حصہ بن گیا،اسے کیوں کر فراموش کیا جا سکتاہے؟پھر مابعد جدیدیت جو جدیدیت کے خاتمے کا اعلان کر چکی ہے اور یہ کئی زاویے سے ترقی پسندی اور جدیدیت سے الگ بھی ہے ،اسے یہاں مو ضوع بحث بننے کا موقع ملنا چاہئے تھا۔
Authors
انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو لکھنئو میں ہوئی تھی ،اس کی صدارت منشی پریم چند کے کی تھی ۔انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں بہ انداز دیگر احساس دلایا تھا کہ مصنفین تو ترقی پسند ہوتے ہی ہیں۔حلقئہ ارباب ذوق کے قیام سے جدیدیت کا رجحان عام ہوا۔یہ ترقی پسند تحریک کی توسیع سے متعلق ہو یا اس کے مخالف لیکن آگے چل کر شمس الرحمٰن فاروقی اس کے قاید اور شب خون ،ترجمان بن کر ابھرے اور اس میں شبہ نہیں کہ اس نے دیر تک اور دور تک اپنے اثرات مرتب کئے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے ہر اس ادب کو جدیدیت تسلیم کیا جو بدلتے ہوئے وقت و حالات کے ساتھ اپنی افادیت اور اہمیت برقرار رکھ سکے۔اس کے علاوہ ترقی پسند تحریک اور جدیدیت سے متعلق اہم باتیں یہ بھی ہیں جو ان دونوں کے درمیان وجہ امتیاز بنیں۔ترقی پسند تحریک کی فکری اساس اشتراکیت تھی جب کہ جدیدیت کی فکری اساس وجودیت ۔اول الذکر کا بنیادی میلان اگر اجتماعیت ہے تو موخرالذکر کا انفرادیت ۔ترقی پسند ی خارجیت پسند ہے تو جدیدیت داخلیت پسند ۔ما بعد جدیدیت ہر چند کہ نہ کوئی فلسفہ ہے نہ نظریہ بلکہ اس کے قایدین و مبلغین اسے ایک کھلا ڈلا رویہ قرار دیتے ہیں۔اس کے باوجود پروفیسر وہاب اشرفی کا یہ خیال اہم ہے
مابعد جدیدیت ترقی پسندی اور جدیدیت یعنی خارجیت اور داخلیت کا ادغام چاہتی ہے۔اس کے رویے سے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ انفرادیت اور اجتماعیت میں ربط معنوی کی جویاہے۔ مقامیت اور مرکزیت میں اتحاد ،یک جہتی اور ہم آہنگی کی موید ہے۔بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اس منہاج فکرو نظر پر اگر ابواب کا تعین ہوتا تو اس کا خاکہ کچھ یوں ہو سکتا تھا۔اردو ناول تشکیلی دور،اصلاحی تحریک ،ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔اور ان تحریکات و رجحانات کے محرکات و عوامل پیش کئے جاتے تو طلبہ خصوصاً یونیورسٹی طلبہ کے لئے یہ کتاب مفید تر ہو سکتی تھی ۔شہاب ظفر اعظمی کا تعلق چونکہ اسے شعبئہ درس و تدریس سے ہے اس لئے وہ میری بات کو اوروں کے مقابلے میں بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
شہاب ظفر نے ”اردو ناو ل کے اسالیب”کے تحت تقریباًتمام ناولوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ناول اپنے دروبست اور حجم و ضخامت میں دوسری صنفوں کی بہ نسبت زیادہ وسعت رکھتاہے۔کوئی افسانہ تو ایک نشست میں پڑھ لیا جا سکتا ہے لیکن کسی ناول کو ایک نشست میں پڑھ پانا ناممکن ہے۔اور جب تک گہرا اور سنجیدہ مطالعہ نہ ہو تب تک ناول کے کسی ایک فکری یا فنی پہلو پر بھی کچھ لکھنا آسان نہیں۔شہاب نے جن ناولوں کو اپنے مطالعے کا موضوع بنا یا ہے،ان کی فہرست طویل ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اتنے ناول پڑھے کیسے؟اور اس مطالعہ میں کتنا وقت صرف ہوا؟ترقی پسند اردو ناول کے اسالیب پر روشنی ڈالنے سے قبل انہوں نے اس کتاب کے دوسرے باب میں نذیر احمد سے مہدی تسکین تک ستائیس ناول نگاروں کے تقریباًچالیس ناولوں کا مطالعہ پیش کیا ہے اور تیسرے باب میں عزیز احمد سے شاہد اختر تک تینتالیس ناول نگاروں کے ناولوں کو مو ضوع ِمطالعہ قرار دیا ہے۔جب کہ بعض ناول نگاروں کے کئی کئی ناول زیر مطالعہ آئے ہیں۔مثلاً جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاش بہاراں اور چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو،قاضی عبدالستار کے ناول داراشکوہ اور خالد بن ولید،انتظارحسین کے ناول بستی اور تذکرہ، جوگندر پال کے ناول نادید اور خواب رو،عبدالصمد کے چار ناول۔
دوگززمین،مہاتما،مہاساگر اور دھمک،حسین الحق کے ناول فرات اور بولو مت چپ رہو،شموئل احمد کے ناول ندی اور مہاماری ،مشرف عالم ذوقی کے تین ناول ،بیان،پوکے مان کی دنیااور پروفیسر ایس کی عجیب داستان۔اقبال مجید کے ناول کسی دن اور نمک،غضنفر کے تین ناول دویہ بانی ،فسوں اور وش منتھن وغیرہ۔ظاہر ہے کہ اتنا وسیع مطالعہ کئی برسوں میں پورا ہوا ہوگا۔ویسے اسلوب کے مطالعے سے متعلق اپنی دلچسپیوں کا اظہارکر تے ہوئے شہاب ظفر اعظمی نے لکھاہے:
”گزشتہ کئی برسوں سے میری دلچسپی اور ادبی مطالعے کا موضوع اسلوب رہا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ میرے خیال میں وہ بات جو ادب کو غیر ادب سے ممتاز کرتی ہے،منجملہ دوسری باتوں کے بڑ ی حد تک وہ مخصوص پیریئہ ادا یا اسلوب بیان ہے جو کسی مصنف نے اپنی تخلیق کے لئے اختیار کیا ۔”(ص ٢٠) ظاہر ہے کہ اپنی افتاد طبع ،مزاج و میلان اور ذوق وشوق کی بنا پر شہاب نے ناولوں کے اسالیب کو اپنی تنقید کو موضوع بنایا ہے اور اس میں اچھا خاصا وقت صرف کیا ہے۔
انہوں نے اسلوب سے متعلق مروج تصورات و نظریات سے اہم حوالے بھی نقل کئے ہیں اور ان حوالوں کی مدد سے اسلوب کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔اسلوب کی قسمیں بھی ہوتی ہیںچنانچہ انہوں نے دو قسموں کو ہی لائق اعتنا تصور کیا ہے، وضاحتی اسلوبیات (Descriptive stylistics) اور تاریخی اسلوبیات(Historical stylistics) ۔شہاب نے اس مطالعے میں بیشتر سروکار تاریخی اسلوبیات سے رکھاہے۔چنانچہ انہوں نے ناولوں کے سیاق و سباق اور پس منظر کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ مثلاً ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ”نذیر احمد کے تمام ناول اس زمانے کی مختلف سماجی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیںاور اس زمانے کے سماجی و مذہبی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے اصلاح و ترغیب کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔”(ص٦٩)
افسانوی ادب میں کوئی نہ کوئی قصہ ہوتاہے جو اس کے کرداروں کے اعمال و افعال اور ان سے متعلق واقعات و واردات اور مسائل حیات و کائنات سے ترتیب پاتاہے۔ظاہر ہے کہ یہ کردار خلا میں نہیں رہتے ،کسی نہ کسی جغرافیائی خطے سے ان کا تعلق ہوتا ہے۔اس جغرافیائی خطے کی تہذیب و ثقافت بھی ہوتی ہے اور اس کا لسانی نظام بھی ہوتا ہے۔مصنف کردار کی علاقائی ،سماجی ،تہذیبی ،معاشی حیثیت کے پیش نظر قصہ ُبنتا ہے اور کرداروں کی زبان سے جو مکالمے ادا کراتا ہے ،اس میں ان کے لسانی رویے کو نظر انداز نہیں کرتا لیکن جہاں وہ راوی کی حیثیت سے اپنا بیان درج کراتا ہے وہاں اپنا لسانی معیار ،لفظیاتی نظام یا اپنا مخصوص اسلوب بر تتا ہے۔اس طرح وہ اسلوب کی سطح پر دوہری ذمہ داریاں نبھاتا ہے
چونکہ کردار مختلف صنفوں اور لسانی سطحوں کے ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں اور ان کرداروں کے منہ میں ناو ل نگار اپنی زبان نہیں ڈال سکتا بلکہ اپنے قلم کی زبان سے ان کی ہی کرداروں کے الفاظ و محاورات اور لہجے میں بولتا ہے،اس لئے کسی ناول کے اسلوب میں یکسانیت کا فقدان عام اور فطری ہوتاہے لیکن یہ اسلوب کی ناہمواری نہیں بلکہ اس کا تنوع ،رنگارنگی اور بو قلمونی ہوتی ہے۔اس کی روشن مثال اردو کے پہلے ناول
نگار ڈپٹی نذیر احمد کے یہاں بھی ملتی ہے۔شہاب معترف ہیں کہ : ”عورتوں کی گفتگو ،ان کے احوال و کوائف کے بیان میں نذیر احمد نے نسوانی انداز تکلم ،طرز گفتگو ،الفاظ و محاورات اور روزمرہ پر کامل دسترس کا ثبوت دیا ہے۔”(ص ٧٦) لیکن شہاب کی زبان میں نصوح کا درج ذیل قول ناہمواری کی نذر ہو گیا ہے:”افسوس کتنی دولت خداداد اس بے ہودہ نمائش اور تکلف و آرائش میں ضائع کی گئی ہے،کیا ہی اچھا ہوتا یہ روپیہ محتاجوں کی امداد اور غریبوں کی کاربراری میں صرف ہوتا۔”(ص٧٦)
اس اقتباس پر شہاب کا تنقیدی ردعمل توجہ طلب ہے: ” عبارت میں زور اور بہائو بے شک ہے لیکن وہ روانی نہیں جو عورتوں کی گفتگو یا ان کے بیان میں پائی جاتی ہے۔ہاں اتنا کہا جاسکتاہے کہ عربی فارسی الفاظ کی بہتات دہلی کی ٹکسالی زبان ،محاوروں اور عوامی کہاوتوں میں چھپ کر زیادہ گراں نہیں گزرتی۔”(ص٧٦) شہاب کے اعتراض کا انداز واسلوب بہت ہی سنجیدہ ،دھیمااور سلجھا ہواہے۔
وہ کھلے لفظوں میں اعتراض نہیں کرتے بلکہ اشارے کنایے میں یا بالواسطہ طورپر اعتراض جتاتے ہیں۔یہی اندازو اسلوب دوسرے ناولوں کے تجزیے میں بھی دکھائی دیتاہے۔مشرف عالم ذوقی کے ناول ”پروفیسر ایس کی عجیب داستان”کے محاکمے میں لکھتے ہیں: ”طوالت ،Documentationاور ذاتیات سے ہٹ کر دیکھا جائے تویہ ذوقی کا ایک اہم ناول ہے۔اس میں عصری تقاضے اور حقائق ہیں اور زبان ،اسلوب اور فکر کا وہ جادو ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔”(ص٣٠٧) ظاہر ہے کہ جس پہلو پر یا جن پہلوئوں پر شہاب معترض ہیں،وہاں انہوں نے اشارے کنایے میں اپنی بات رکھی ہے اور بڑی تیزی سے آگے نکل گئے ہیں۔
Book
لیکن جو پہلو ان کے نزدیک قابل تعریف تھاوہاں وہ ٹھہر ٹھہر سے گئے ہیں۔ان کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ ایک ٹیچر کی حیثیت سے جب میں اس کتاب پر نظر ڈالتاہوں تو طلبہ کے لئے خاص طور سے یونیورسٹی طلبہ کے لئے اسے بہت ہی مفید پاتاہوں لیکن ایک کمی پھر بھی کھٹکتی ہے۔اگر ہر ناول کے قصے کا خلاصہ مختصر طور پر بیان کر دیا جاتاتو یہ کتاب مفید تر ہوگئی ہوتی ۔لیکن شہاب نے جس زاویے سے ناولوں کی مطالعہ پیش کیاہے ،وہ ان کے مخصوص دائرئہ کار سے متعلق ہے اور اس دائرئہ کار میں وہ کامیاب و کامران نظر آتے ہیں