تحریر:اے ۔آر جی۔ اسلام آباد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بدعنوانی اور تعلیمی معیار کی کمی و پستی اور اس یونیورسٹی کو درپیش سیکولر و لبر طبقہ کی سازشوں کا سامنا ہے وہیں پر نام نہاد مذہبی طبقہ کے اثر و رسوخ اور اس کے عالمی تشخص کو مجروح کرنے کا ذریعہ بناہوا ہے۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اس یونیورسٹی میں سعودیہ عرب کی جانب سے بطور گفٹ و تحفہ بھیجے گئے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش نے اپنی کمزورطاقت و قوت کوچھپانے کے لئے امت مسلمہ کے خون پسینہ سے کمائی ہوئی دولت کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔جس کے نتیجہ میں انہوں نے اسلامی یونیورسٹی کے بڑے عہدوں اورمنصبوں پر پہلے سے براجمان افراد کے ساتھ ساتھ نئے ایسے افراد کو اپنے حاشیہ خانے میں شامل کیا کہ جو لوگ مال پیسہ کی خاطر اپنی جان و عزت اور حرمت تک کو قربان کردینے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں یعنی کے ملک پاکستان اور امت مسلمہ کے مستقبل کے ساتھ غداری کرنے اور نوجوانوں کی حیات کو جہنم کا ایندھن بنانے میں ذرابھی تامل نہیں کرتے۔صدر احمد یوسف الدریویش نے اپنے ساتھ مترجمین کی فوج ظفر موج صرف اس لئے مقرر کی ہوئی ہے کہ وہ ان کی کتب یا ان کے نام سے کتب کو اردو اور انگریزی میں شائع کریں جس سے ان کے علمی مقام و مرتبہ مسلم رہے ۔
اس کے ساتھ انہوں نے اپنی کرسی کے تحفظ کے لئے پاکستانی افسروں کے ضمیروں کو خریدنے کے لئے ان کو اپنا ایڈوائزر متعین کردیا جن میں گلزار خواجہ ،ڈاکٹر عزیزالرحمن،ڈاکٹر الیاس،ڈاکٹر حافظ انور،ڈاکٹر عبدالقادراور عبداللہ فیفی شامل ہیں۔صدر جامعہ نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلامی یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر ایسے افراد کو متعین کیا جن کی دینی و ملی حمیت و غیرت سعودی عرب کے مال و دولت کے سامنے شکست تسلیم کرچکی ہے۔ان افراد میں ڈاکٹر ہارون الرشید(ڈپٹی ڈین اصول الدین )،(ڈاکٹر طاہر حکیم(ڈین شریعہ اینڈا لاء )بدنام زمانہ علمی چوری کے مرتکب ڈاکٹر شیر خان (ڈین بی ایس سی ایس)،ٹرانسپورٹ سیکشن میں کروڑوں کی کرپشن کرنے والے سیف الرحمن کو( ڈائریکٹر فناس)،ڈاکٹر سہیل حسن جو کہ قانونی طور پر یونیورسٹی سے رئٹائر ہوچکے ہیں کو( ڈائریکٹر دعوةکیڈمی )،میڈیا کی اہمیت و افادیت اور اس کی تعریف سے نابلد ڈاکٹر عابد مسعود کو ڈبل ذمہ داریوں سے نوازا گیا جن میں سٹوڈنٹ ایڈوائزر شپ اور ڈئریکٹر روٹوکول اور پبلی کیشن متعین کیا ۔
Pakistanis
صدر جامعہ نے پاکستانیوں کی نرم مزاجی و مفاداتی طبیعت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو عمرہ ،حج ،اور سکالرشپس اور بیرون ملک دورے کرانے کوبطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ ان سہولیات سے مستفید ملازمین،اساتذہ،طلبہ ،افسران کوئی معترضانہو جرأتمندانہ صداحق نہ لگا سکے۔جب کی یونیورسٹی کی علمی و تحقیقی تنزلی کی تاریخ کو مٹانے و ختم کرنے کے لئے کوئی کردار ادانہیں کیا اور نہ ہی طلبہ و یونیورسٹی کی بھلائی و نیک نامی کے لئے کوئی قابل قدر کردار اداکیا۔سٹوڈنٹ کلاسوں اور ہاسٹلوں سے محروم ہیں اور معیار تعلیم تو اس قدر روبہ زوال ہے کہ سفارشی وزیٹر اور مستقل اساتذہ طلبہ ہی سے یاتو پریزنٹیشن کے نام پر ٹائم پاس کرتے ہیں یا واہیات قسم کے قصے اور حکایات پر وقت گذاری کرتے ہیں۔اور حال ہی میں اسلامی یونیورسٹی میں اساتذہ کی غیر قانونی ترقی و تقرریوں میں بدیانتی کی خبریں بھی میڈیا میں گردش کررہی ہیں ۔اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ صدر جامعہ نے ڈاکٹر ہارون الرشید کو اصول الدین فیکلٹی کا ڈین بنانے کا فیصلہ کردیا ہے جس نے حال ہی میں دھوکہ دہی اور فراڈ کے ذریعہ بیک وقت اسسٹنٹ پروفیسر سے پروفیسر کا منصب حاصل کیا ہے جبکہ اس کی دیانت دارانہ اور امانت پسندی پر مبنی علمی و عملی اور تحقیقی و ادارتی خدمات سے کوئی ذی شعور واقف نہیں۔
مندرجہ بالا کلام کی روشنی میں حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی و عالمی کردار کو مجروح ہونے سے بچانے میں اپنا کردار اداکریں ۔یونیورسٹی میں ہر سطح کی ہونے والی اساتذہ و ملازمین کی تقرری و ترقی پر نظر رکھیں اور یونیورسٹی کو من پسندی یا جاہ و منزلت کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو اسلامی یونیورسٹی سے بے دخل کیا جائے خواہ اس میں پاکستانی و عربی ہی کیوں نہ ملوث ہو۔ملک پاکستان کے مسلم نوجوانوں کو ایک ایسی یونیورسٹی چاہیے کہ جس میں ان کو جرأت قومی اور حمیت دینی اور امانت داری کی تعلیم و تربیت دی جائے ۔اگر یہ فریضہ یہ یونیورسٹی اداکرنے سے قاصر ہے اور جس سے ایچ ای سی اور حکومت دونوں آشناہیں فی الفور ایکشن لے کر اس یونیورسٹی کومکمل طور پر سرکاری تحویل میں لے۔ہم حکومت پاکستان اور وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم میاں بلیغ الرحمن،وفاقی وزیر احسن اقبال ،وزیر مملکت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور ڈاکٹر مختار احمد چئیر مین ایچ ای سی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا گذارشات کی روشنی میں جلد اور ٹھوس بنیادوں پر عملی فیصلہ کریں بصورت دیگر ملت اسلامیہ کا نوجوان طبقہ روزقیامت اپنے ساتھ کئے گئے استحصال اور زندگی کو اجیرن بنانے اور مستقبل کی تباہی کا سوال ضرور کریں گے۔