تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری سابق وزیر دفاع رائو سکندر اقبال کی خصوصی کاوشوں سے شہر کے وسط میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کا سب کیمپس بنوانا ایک انتہائی اہم اقدام تھا یونیورسٹی آف ایجوکیشن اوکاڑہ کیمپس اعلی تعلیم کے خواہاں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی خاص طور طالبات کے لیے جنھیں اعلی تعلیم کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا جہاں رہائش اور دیگر مسائل کے سبب اکثر اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کر دیتی تھیں یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور کا سب کیمپس اوکاڑہ میں آنے سے طلباء کی اپنے ہی شہر میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی دلی خواہش پوری ہوئی اور اب تک ہزاروں طلبا و طالبات یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایجوکیشن اوکاڑہ شہر کے اہم علاقہ صمد پورہ میں ایک سکول کی بلڈنگ میں توسیع کر کے قائم کی گئی تھی جسکا رقبہ روز بروز طلبہ کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے کم ہوتا جارہا تھا جس پر اس کیمپس کو شہر سے تقریباََ 19.5کلومیٹر دور براستہ جی ٹی روڈ شہررینالہ خورد سے کچھ پہلے تعمیر کیا گیا جسکا رقبہ 204 ایکڑ پر محیط ہے 2012 میں 470 ملین روپے کی لاگت سے قائم ہونے والی یونیورسٹی میں پہنچنے کے لیے ریلوے ٹریک کو عبور کرنا پڑتا تھا حکومت وقت نے جی ٹی روڈ پر یونیورسٹی تو بنا دی لیکن یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے ریلوے ٹریک کے بارے میں نہ سوچا گیا۔
تعلیمی سلسلہ شروع ہوجانے کے بعد طلبا و طالبات کو یونیورسٹی آنے جانے کے لیے اس ٹریک سے گزرنا انکے لیے مجبوری بن گیا جو کسی کی بھی جان کے لیے خطرے سے کم نہ تھا 2016 میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے اوکاڑہ کیمپس کو خود مختار یونیورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے “یونیورسٹی آف اوکاڑہ” کا نام دے دیا گیاجس پر موجودہ ایم این اے اور ایم پی اے نے اس کا کریڈٹ لینے کے لیے اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے چند ماہ شہر بھر میں بڑے بڑے ہورڈنگ بورڈز پر رنگین تصاویر کے ساتھ یونیورسٹی کے قیام میں اپنا اپنا کردار نمایاں کرنے کے لیے بھرپور تشہیر کی، اس صورتحال میں امید کی ایک نئی کرن تو پیدا ہوئی کہ چلو اب یونیورسٹی کے مسائل دور ہوں گے اور یونیورسٹی آف اوکاڑہ کا دیرینہ مسئلہ مرکزی دروازہ کے سامنے ریلوے ٹریک پر پھاٹک بنانے کا حل ہو جائے گالیکن افسوس جتنا پیسہ اور وقت اپنی تشہیر کے لیے سیاسی رہنمائوں نے صرف کیا اگر ریلوے ٹریک پرپھاٹک بنوانے میں کیا ہوا تو کئی جان لیوا حادثات سے بچا جا سکتا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے ریلوے لائن اور جی ٹی روڈ کوپیدل عبور کرنے والوں کے لیے پل کی تعمیر کی گئی لیکن اس کا استعمال کم ہوا جسکی سب سے بڑی وجہ طالبات کو یونیورسٹی لانے لیجانے والی ٹرانسپورٹ کا ریلوے ٹریک کے دوسری جانب جی ٹی روڈ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے 2015میں یہ بات سننے میں آئی تھی کہ شہر کے وسط سے گزرنے والی طویل شاہراہ بے نظیر روڈ کو ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے مرکزی دروازہ تک لے جایا جائے گا لیکن یہ منصوبہ سیاست کی نظر ہوگیا جس کے بعد متبادل راستہ نہر لوئر باری دوآب کے ساتھ ساتھ سڑک کو یونیورسٹی تک تعمیر کر کے عوام کو میٹھی گولی دی گئی لیکن طلبا وطالبات خاص طور پر ٹرانسپورٹر حضرات نے اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جسکی بڑی وجہ جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ ملحقہ علاقوں کے ہزاروں طلبہ کا طویل راستہ اختیار کرنے سے پہلوتہی کرنا تھا۔
یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ نے اس پر بارہا احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کو باقاعدہ راستہ جی ٹی روڈ کی جانب سے دیا جائے تاکہ قیمتی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالا جاسکے قارئین کرام گزشتہ دنوں جب میں ایف ایم 92&90 ریڈیوکے پروگرام میں شریک تھا تو مجھے ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ انچارج ظفر اقبال صاحب کال موصول ہوئی لائیو پروگرام میں شریک ہوتے ہوئے بھی میں نے وہ کال موصول کی دوسری جانب سے مجھے ظفر اقبال صاحب نے ایک افسوسناک خبر بتائی کہ ایک طالبہ ایوننگ کلاس سے فارغ ہونے کے بعدریلوے ٹریک عبور کرتے ہوئے موسی پاک ٹرین کے نیچے آکر جان بحق ہوگئی ہے جس کا اعلان میں نے سید ندیم مقصود جعفری سے اپنے سننے والوں کے لیے شیئر کیا قارئین کرام یہ افسوسناک واقعہ کیسے پیش آیا اسکی مختصر سی تفصیل یہ ہے کہ شعبہ انگریزی کی طالبہ نبیہ مختاردخترمختار احمد جو کہ ایوننگ کلاس ختم ہونے کے بعد یونیورسٹی سے باہر نکلی تو ریلوے ٹریک کراس کرتے ہوئے ٹرین کی زد میں آگئی جس سے طالبہ موقع پر جان بحق ہو گئی۔
نبیہ مختار کا تعلق ضلع اوکاڑہ کے گاؤں 14 ون اے ایل سے تھا اور اس نے رواں سال ہی یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں داخلہ حاصل کیا تھاموقع پر موجود ایک طالبہ کا کہنا تھاکہ نبیہ تیزی سے ریلوے ٹریک کی جانب بڑی تو سکیورٹی گارڈ نے اُسے وسل دی لیکن وہ نہ رکی اور ٹرین کی زد میں آگئی جبکہ ایک اطلاع کے مطابق طالبہ نے ہینڈ فری لگا رکھی تھی جس کی وجہ سے آواز نہ سن سکی ۔نبیحہ کی موت کے بعد طلبا و طالبات سمیت ضلع بھر کی عوام میں غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ضلعی انتظامیہ اور مقامی عوامی نمائندوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ٹریک پر فوری ریلوے پھاٹک تعمیر کیا جائے تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچا جاسکے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی شعبہ انگریزی کی ایک خاتون لیکچرر مس ماریہ یونیورسٹی کے سامنے روڈ کراس کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایک ٹانگ فریکچر ہوگئی ایسا ہی ایک حادثہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ زوالوجی میں ایم فل کے طالب علم کے ساتھ ہوا جس سے اس کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی تھی ایسے بے شمار حادثات ہیں جو یونیورسٹی کے سامنے باقاعدہ راستہ نہ ہونے کی وجہ سے پیش آرہے ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ، طلبہ اور والدین پریشان ہیں۔
ریلوے انتظامیہ، نیشنل ہائی وے اور ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ایسے افسوسناک حادثات پیش آرہے ہیں، ایک تجویز یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ اگر یونیورسٹی کے سامنے گزرنے والے ٹریک کے نیچےU” ” شکل میں انڈر پاس بنا دیا جائے تو کسی کو ٹریک پر جانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور جان لیوا حادثات سے کافی حد تک بچا ساسکے گا اس حادثے کے بعد ریسکیو 1122 اور مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچی جب اس سلسلے میں مقامی قیادت سے ریلوے پھاٹک کی تعمیر میں رکاوٹوں کے بارے پوچھا گیا تو ایم پی اے میاں محمد منیر کے ترجمان محمد شاہد نے بتایا کہ اس مسئلہ کو لے کر میاں محمدمنیر نے بارہا ریلوے کے اعلی حکام اور وزیر ریلوے سعد رفیق سے ملاقات کی ہے جس پر جلد عمل درآمد ہونے کی توقع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وطن عزیز میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد ہی اداروں کے سربراہان اور حکومت کے عہدیداران کو اقدامات کرنے کا خیال آتا ہے۔