تحریر : رفاقت حسین ملک میں جب انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں تو انصاف کے ترازوں کا بہترین مصرف ان پر آلو ٹماٹر تول تول کر بیچنا ہے۔ ایک جاہل، گنوار اور ان پڑھ سیاست دان کا انصاف کی کرسی پر اثر انداز ہونا اشارہ کرتا کہ ملک کو دیمک چاٹ چکی ہے۔ آج تک و طن عزیز میں حاکم نے انصاف کو بے دام لونڈی کی طرح استعمال کیا۔حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب اس ملک میں ملک کے خلاف نعرے مارنے والے،جھنڈا جلانے والے اور سینکڑوں کی تعداد میں انسانوں کو قتل کرنے والوں کو گورنر اور میئر کے منصب عطا کئے جاتے رہے ہیں، سو انسانوں کو قتل کرنے پر عدم ثبوتوں کی بنیاد پر صرف اس لئے بری کیا جاتا رہا ہے کہ ہمارے آج کے سیاستدانوں کے مفادات ان قاتلوں کے سربراہوں سے وابستہ تھے۔
اس لئے انہوں نے کتنے ہی خاندانوں کے چراغ کیوں نہ بجھا دئے ہوں، کتنے ہی بچوں کو یتیم کیوں نہ کردیا ہو، کتنی ہی عورتوں کے سہاگ کیوں نہ چھین لئے ہوں، مجرم قرار نہیں دئے جاسکتے،کیونکہ مجرم قرار دئے جانے کے لئے ثبوتوں کا ہونا ضروری ہے اور ہمارے آج کے معاشرے میں ایک ہزار کے قریب (ہزار تو چھوڑیں دو چار گنیں دیکھ کر بھی )کلاشنکوفوں کے سائے میں کون ہوگا جو اپنے اور اپنے بیوی بچوں اور پورے خاندان کی زندگی کو داو پر لگاتے ہوئے ان مجر موںکے خلاف کھڑا ہونے کی جرات کرے گا؟ماڈل ٹا ئون میں خو ن کی ہولی کھیلنے والوں کے گر یبان آج بھی آزاد ہیں،بلدیہ ٹاون کی فیکٹری کے شعلے آج بھی بھڑک رہے ہیں اور تاقیامت بھڑکتے رہیں گے جلنے والے تو جل کر خاک ہو گئے لیکن آپ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ کھیل کھیلا ان کے اندر کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی ؟؟ نہیں ہرگز نہیں وہ لوگ قیامت تک کے لئے آگ کی نظر کردئے گئے ہیں اور بعد قیامت بھی ایک مزید آگ جہنم کی آگ ان کی منتظر ہوگی۔ معذرت کے ساتھ،، آج ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ کشمیر، شام وفلسطین میں ڈھائی جانے والی قیامت کے تذکرے کرتے ہیں۔
معصوم لوگوں پر ہونے والے ظلم وستم پر آنسو بہا رہے ہیں لیکن جو قیامت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں پر گزر گئی اس پر بے حسی کیوں؟ جو استحصال اس ملک کی غریب عوام کا کیا جارہا ہے سالوں سے اس پر مجرمانہ خاموشی کیوں ؟ پاکستان کے ایک فخریہ شہری ہونے کے ناطے یہ میرا حق ہے کہ میں پوچھوں آپ لوگوں سے کہ جناب کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ آج تک کوئی ایک فیصلہ آپ لوگ بتا دیں جس کا فیصلہ آپ لوگوں نے عوام کی منشا کے مطابق دیا ہو؟ سوئس بینکوں میں پاکستانی حکمرانوں کے ناجائز اکاونٹ کے معاملات ہوں پا نا مہ لیکس ہو،یا کہ پھر رینٹل پاور پلانٹ میں کرپشن کے معاملات، ایان علی کی ڈالر سمگلنگ اور پھر وہ بے چارہ کسٹم اہلکار جو شہید کردیا گیا تھاوہ تو کہیں گم ہی ہوگیا،ڈاکٹر عاصم کا کیس لٹک لٹک کر ختم ہونے کو ہے، لیکن انصاف کا تقاضہ تو اس ملک میں یہ ہے کہ ساڑھے چار سو ارب روپے کی کرپشن کرنے،دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ملک کے خطرناک ترین دہشت گردوں کے علاج معالجے میں سہولتیں فراہم کرنے والے ڈاکٹر عاصم کو مظلومیت کا جامہ پہنا دیا گیا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کی صدارت کا تاج پہنانے کے ساتھ ہی پارٹی میں ایک اعلی ترین عہدہ بھی تفویض کردیا گیا ہے ۔شرجیل میمن بھی مزے کر رہے ہیں۔ملک کی تما م اسٹیبلشمنٹ ،حکمران کیا ، سرکاری ونیم سرکاری ادارے، سب کے سب غریب عوام کی کمائی پر پل رہے ہیں۔
ٹیکسسز کا بوجھ عوام پر ڈال کر ان سب کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں لیکن پھر بھی یہ سب لوگ عوام ہی کا جینا محال کئے ہوئے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی کسی نے ایسی کوئی بھی مثال سنی ہوگی کہ جس کا کھاو اسی کو سب سے پہلے کاٹو لیکن اس ملک میں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے،کھاتے بھی ہمارا ہیں اور خلاف بھی ہمارے۔سب جانتے ہیں کہ کس طرح اس ملک کی غریب عوام کو لوٹ لوٹ کر کھانے والوں کا احتساب بلکہ جعلی احتساب کا ڈرامہ پر کھیلا جاتا رہا ہے،آج بھی یہ سارا کھیل اسی طرح جاری وساری ہے، بس کچھ چہرے بدلے گئے، کچھ نقاب الٹے گئے،کچھ حیران ہوئے تو کچھ پریشان،کچھ نے کتابیں کھولیں تو کچھ نے ثبوتوں کے ڈھیر لگا دئے،لیکن کسی مقدس گائے ہی کی طرح ہمارے آج کے حکمران بھی مقدس ٹھہرے کل ہی کی طرح۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب غر یب عوام کے پا س 2018 میں ظا لموں سے ملک اور اپنے آپ اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفو ظ بنا نے کیلئے غیر جا نبدار ہو کر ایسی قیا دت کو منتخب کر نا ہو گا جس کا ما ضی اور حال بے داغ ہو اگر یہ آخری مو قع ہم نے گنوا دیا تو پھر بھول جا ئیں تبد یلی کو ۔ رو شن مستقبل کا فیصلہ اب ہما رے اپنے ہا تھوں میں ہے۔